بلاگ
Time 02 جولائی ، 2021

حکومت، اپوزیشن اور عوام

حکومت کا دعویٰ ہے کہ معیشت ترقی کی طرف گامزن ہے۔ جی ڈی پی کی شرح وہ نہیں رہے گی جس کا موجودہ سال کے لئے بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور معاشی ماہرین نے ذکرکرتے ہوئےخدشات کا اظہار کیا ہے۔ حکومتی دعوے کے مطابق جی ڈی پی کی شرح اور ٹیکسز زیادہ جمع ہوں گے۔ 

حکومت نے بھاری اکثریت سے بجٹ بھی منظور کرایا اور منی بجٹ کے نہ آنے کا بھی وعدہ کیا۔ لیکن اپوزیشن اپنے تمام تر بلند بانگ دعوئوں کے باوجود بجٹ کی منظوری میں نہ صرف یہ کہ کوئی رکاوٹ ڈال سکی بلکہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو بجٹ منظوری کے لئے محفوظ راستہ فراہم کیا۔ جس بجٹ کو ’’ عوامی مفاد‘‘ کے خلاف قرار دےکر واویلا کیاجاتا رہا اور محسوس کیا جارہا تھا کہ شاید اب اپوزیشن ذاتی معاملات کے حصار سے نکل کر عوامی مسائل کے حل کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی ہے اور وہ حکومت کوبجٹ میں سے مہنگائی اور بے روزگاری کا باعث بننے والے عناصر کو نکالنے پر مجبور کردے گی۔ 

لیکن قوم کو اس وقت شدید مایوسی ہوئی جب مسلسل تقریر کرنے والے چاراپوزیشن لیڈر نازک اور اہم موقع پر نہ صرف خودغائب پائے گئے بلکہ مسلم لیگ(ن) کے اراکین قومی اسمبلی بھی بڑی تعداد میں غائب رہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے اگرچہ حاضری تو لگائی اور اسمبلی میں دھواں دار خطاب بھی کیا لیکن گوہر مقصودحاصل نہ کرسکے ۔ صرف ایک دن قبل وزیر اعظم کو خطاب نہ کرنے دینے کا اعلان اورد عویٰ کرنے والے چیئرمین پیپلز پارٹی گزشتہ روزو زیر اعظم کے خطاب کے دوران خود ہی غائب رہے۔ اور جو بچے کھچے اراکین اپوزیشن اسمبلی میں موجود رہے انہوں نے بھی اچھے بچوں کی طرح خاموشی اختیار کیے رکھی۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے بارے میں مسلم لیگ (ن) کی ترجمان نے بتایا کہ وہ اپنے قریبی عزیز کی فوتیدگی میں شرکت کی وجہ سے بجٹ کی منظوری والے دن اسمبلی اجلاس میں شرکت نہ کرسکے۔

ترین گروپ نے بجٹ منظوری میں کوئی مزاحمتی کردار ادا نہ کیا بلکہ حکومت کا ساتھ دیا۔ اس بجٹ اجلاس نے اپوزیشن اور ترین گروپ دونوںکی قلعی کھول کے رکھ دی۔ حکومتی وزرا اور ترجمانوں کے اس دعوے کو سچ ثابت کیا کہ یہ سب این آر او کے طلبگار ہیں۔ اور صرف جان کی امان چاہتے ہیں۔ عوام جائے بھاڑ میں۔ اگر یہ کہا جاتا ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ عوام کی وجہ سے پی ٹی آئی کے اراکین قومی وصوبائی اسمبلی اپنے حلقوں میں نہیں جا پارہے تواس کے بعد اپوزیشن والےکس منہ سے عوام سے ساتھ دینے کی توقع کرسکتے ہیں۔ 

اگر وہ اپنی جان چھڑانے کی ہی فکر اور کوششوں میں ہیں تو پھر سیاست اور عوام کی ’’ رہنمائی ‘‘ چھوڑ کر کوئی اور کام کیوں نہیں شروع کرتے۔کیا عوام کا کندھا جو پہلے ہی مہنگائی اور بیروزگاری کے بوجھ سے جھکا ہوا ہے ان رہنمائوں کے مفادات کے لئے رہ گیا ہے کہ جب ضرورت محسوس کریں تو اسی کندھے کو استعمال کریں۔ ان کی تقاریر سے کیا صاف نظر نہیں آرہا کہ وہ صرف اپنی باتیں کرتے ہیں۔ البتہ کبھی کبھی منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے عوام کا نام اور مہنگائی کا ذکر بطور نمک کرلیتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف عوام کا بھی جواب نہیں کہ ٹی وی چینلز کے کیمروں کے سامنے رونا روکر اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ 

حکومتی جماعت ہو۔ حکومتی اتحادی ہوں یا اپوزیشن کی جماعتیں ہوں۔عوام سب کو ووٹ دیتے ہیں اور دیتے ہی رہتے ہیں۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اس نام نہاد جمہوریت کا پھل چند افراد ہی کھاتے ہیں۔ عوام کو تو اب تک یہ پھل کھانا تو درکنار دیکھنا بھی نصیب نہیں ہوا ہے لیکن جمہوریت کے شیدائی پھر بھی گرمی ، سردی اور بارش میں قطاروں میں کھڑے ہوکر ’’اپنے‘‘ نمائندوں کو منتخب کرنے کے لئے ووٹ دیتے ہیں۔ تو پھر منتخب ہونیوالے ’’نمائندوں‘‘ کا کیا قصور ہے کہ ان سے گلہ کیا جائے؟ گزشتہ انتخابات میں جن لوگوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ دئیے تو وہ برملا کہتے تھے کہ وہ ’’ تبدیلی‘‘ چاہتے ہیںاور عمران خان کو آزمانا چاہتے ہیں۔ اب رونا تو نہیں چاہئے۔

حکومت نے بجٹ منظوری کے اگلے دن ہی پیٹرول،ڈیزل وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ کیا۔ بعض احباب اس کو پیٹرول بم سے تشبیہ دیتے ہیں اور بعض اس کو مہنگائی میں مزید اضافے کا باعث قرار دیتے ہیں۔ ابھی توبجلی، گیس اور پیڑولیم مصنوعات کے علاوہ آٹا، چینی، گھی اور روزمرہ استعمال کی تمام اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہونا ہے۔ اس کی وجوہات بھی ہیں۔ یہ بھی نظر آرہا ہے کہ حکومت بجٹ اور ٹیکسز کے اعداد وشمار کو پورا نہیں کرسکے گی۔ 

سابقہ حکومتوں کو چور، ڈاکو کہنے والوں نے تین سال میں عوام کو کوئی ریلیف نہ دیا بلکہ ریلیف فراہم کرنےکی بجائے عوام کا جینا محال کردیا ہے۔ سابقہ ادوار میں بین الاقوامی اداروں سے قرضہ لینے کو لعنت قرار دینے والوں کی حکومت قرضوں پر چل رہی ہے جن کی شرائط کی تکمیل کے لئے غریب عوام کو ہی بکرا بنایا جارہا ہے۔ جمہوری حکمرانوں کی ہمیشہ سے یہ ضد اور روش ہے کہ قربانی وہ دیتے ہیں لیکن اس کے لئے بکرا عوام ہی کو بناتے ہیں۔ عوام بھی بھیڑ بکریوں کی طرح بخوشی قربان ہونے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ 

شاید اس کو جمہوریت اور جمہوری مزے کہتے ہیں۔ بجلی، گیس، اور پانی ناپید ہیں۔ایک طرف مہنگائی تو دوسری طرف بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ نے تباہی مچا دی ہے۔ کارخانوں کی بندش اور کاروبار میں کمی کی وجہ سے لاکھوں غریبوں کے چولہے بجھ گئے ہیں۔ اس جان لیوا مہنگائی میںمزدوری کی آس بھی ختم ہوگئی ہے لیکن حکومت معیشت کی ترقی کا راگ الاپتی ہے۔پتہ نہیں کس کی معیشت ترقی کررہی ہے۔فیصلہ اب عوام کریں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔