07 جولائی ، 2021
اچھا ہوتا اگر وہ نہیں ہوتاجو ہوا ،اس اہم ترین بیٹھک میں۔ معاملہ قومی سلامتی کا تھا اور وزیر اعظم عمران خان کی موجودگی اہم تھی۔ اچھا ہوتا اگر قائد حزب اختلاف شہباز شریف فوراً اپنی غلطی یا غلط فہمی کو دور کر لیتے اور وزیر اعظم کو بلانے کے بعد ’’سیکورٹی بریفنگ‘‘شروع ہوتی۔ اس سے بھی زیادہ مثبت پیغام اس وقت جاتا جب حکومت اور اپوزیشن یک زبان ہو کر دنیا کو پیغام دیتے کہ معاملہ ملک کا آ جائے تو ہم ایک ہیں۔
اب بھی کچھ نہیں بگڑا ، قومی سلامتی پر ایک اور اجلاس ہونا باقی ہے غالباً عید سے پہلے، یہ ان کیمرہ اجلاس اگر افغانستان کے تناظر میں تھا تو دوسرا اہم اجلاس پاک بھارت مقبوضہ کشمیر اور اندرونی سکیورٹی کے تناظر میں ہونا ہے۔ماضی میں حکومتیں تمام تر اختلافات کے باوجود اہم قومی معاملات پر اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلتی تھیں ۔بات شملہ جانے کی ہو یا جنیوا معاہدے کی۔
یہ بریفنگ ،افغانستان، کی بدلتی اور بگڑتی صورتحال پر تھی ۔کیونکہ پچھلے چالیس برسوں سے ہم اندرونی طور پر وہاں کے حالات سے خاصے متاثر ہوئے ہیں۔ غلطیاں بھی بے شمار کی ہیں،لہٰذا روس کے بعد امریکہ کی واپسی کے نتیجے میں یا تو وہ بدقسمت ملک ایک بار پھر خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے اور کابل پر قبضے کی جنگ جاری رہے گی یا افغان طالبان کی حکومت قائم ہو سکتی ہے۔ ایسے میں نہ صرف دباؤہمارے بارڈر پر بڑھے گا بلکہ اندرونی طور پر بھی حالات بگڑ سکتے ہیں، ہمیں دونوں محاذ پر چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔
ہماری ماضی کی غلطیوں میں دونوں افغان جنگوں میں شریک ہونا اور اس حد تک آگے جانا تھا کہ خود ہی غیر محفوظ ہو جائیں، ناقص پالیسی تھی۔ نتیجہ میں نہ ہم پچاس لاکھ کے قریب افغان مہاجرین کو ایران کی طرح کیمپوں تک محدود رکھ سکے نہ ان ہزاروں ’’مجاہدین ‘‘جن میں دیگر ممالک کے باشندے بھی شامل تھے، اُنہیں انکے ملکوں کو واپس بھیج سکے۔ جنہوں نے اس دوران ہتھیار اٹھانا میزائل مارنا اور ہر طرح کی لڑائی لڑنا سیکھ لیا تھا،یہی وجہ تھی کہ ان کے اپنے ملکوں نے ان کو واپس لینے سے انکار کر دیاتھا۔
روس واپس چلا گیا اور امریکی مفادات وہاں وقتی طور پر ختم ہو گئے۔ ہم صرف منہ تکتے رہ گئے۔ اس سب کی ہمیں بھاری قیمت ادا کرنی پڑی نہ صرف فاٹا، اور KPمیں بلکہ کراچی سے لے کر بلوچستان تک۔روس کے وہاں سے جانے اور 9/11کے درمیان 30 برسوں میں ہمارے ملک میں دہشت گردی مختلف شکل میں سامنے آئی۔ افغان جنگ میں شریک جنگجوئوں نے اب اپنے اپنے گروپ بنا لئے۔
ایسا ہی ایک گروپ القاعدہ کی شکل میں سامنے آیا اوراسامہ بن لادن کا نام اس گروپ کے قائد کے طور پر سامنے آیا۔ اندرونی طور پر ملک میں اسلحہ کی فراوانی اور منشیات نے ہمارے شہروں ، خاص طور پر کراچی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔فرقہ وارانہ فسادات کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے بھی واقعات بڑھنے لگے۔ 1987کے کراچی صدر بم دھماکہ جس میں دو سو کے قریب لوگ مارے گئے۔
اس کا الزام روس کی خفیہ ایجنسی پر لگایا گیا۔ مگر جس دھماکہ نے ہماری قومی سلامتی کو ہلا کر رکھ دیا، وہ تھا جب سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے عرب جنگجوئوں کو ان کے ملکوں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ۔مصر سے خصوصی جہاز میں دو سو کے قریب یا شاید اس سے زیادہ افراد کو جن کا تعلق انتہا پسند گروپ سے تھا واپس بھیجا گیا۔ اس کے چند ہی ہفتوں بعد ایک خود کش حملہ اسلام آباد میں واقعہ مصر کے سفارت خانہ پر ہوا۔
ہم اندرونی طور پر ایک ایسی جنگ کا حصہ بن گئے جس سے بچا جا سکتا تھا یا کم از کم اپنی سرزمین کو محفوظ کیا جا سکتا تھا۔ ہم نے افغان طالبان کی بنیاد رکھ دی اور وہ بھی بے نظیر بھٹو کے دور میں۔ISI کے سابق سربراہ جنرل حمید گل مرحوم نے ایک بار مجھے بتایا کہ 1988میں بے نظیر کے اقتدار میں آنے کے بعد انہیں پہلی ’’سیکورٹی بریفنگ ‘‘ انہوں نے دی اور انہیں ’افغان پالیسی‘ بتا دی۔
9/11کے بعد یہ صاف نظر آ رہا تھا اگر طالبان حکومت نے اسامہ بن لادن کو کسی دوسرے ملک نہیں بھیجا یا امریکہ کے حوالے نہ کیا تو حملہ ہو سکتا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ مشرف نے ISIکے چیف جنرل محمود کے ساتھ ملا عمر کے استاد مفتی نظام الدین شامزئی اور مفتی محمد جمیل کو افغانستان بھیجا اس پیغام کے ساتھ کہ اسامہ کے بارے میں جلد فیصلہ کریں۔
پیغام کیا دیا اس کا تو پتہ نہیں مگر چند ماہ بعد ہی دونوں علماء کرام ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہو گئے۔ملا عمر نے انکار کیا تو اکتوبر میں حملہ ہو گیا۔اس بار ہم نے مختلف جنگ لڑی، ایک بار پھر بڑی تعداد میں صرف مہاجرین ہی نہیں آئے بلکہ القاعدہ اور طالبان بھی آئے ۔خود ملک کے اندر امریکی مخالف مظاہرے زور پکڑ گئے جس کے سیاسی اثرات یہ ہوئے کہ 2002کے عام انتخابات میں پہلی بار مذہبی جماعتوں کو اچھی خاصی کامیابی نصیب ہوئی۔
صوبہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت قائم ہوئی اور کراچی اور مرکز میں بھی وہ بڑی قوت بنی۔ پاکستان کے باہر اس کا پیغام خاص طور پر مغرب میں یہ گیاکہ یہاں انتہا پسند مضبوط ہو رہے ہیں جن کی خاموش حمایت طالبان اور القاعدہ کے ساتھ ہے۔
ان تمام برسوں میں القاعدہ کے کم از کم تین بڑے رہنما یہیں سے ملے ۔بشمول خالد شیخ محمد، رمزی بن الشیبا اور پھر ایبٹ آباد میں امریکی فورس نے یہاں داخل ہو کر اسامہ بن لادن کو مبینہ طور پر ختم کر دیا ۔دیگر دو امریکی قید میں ہیں۔ سیاسی لیڈر وہ ہوتا ہے جس کا وژن ہوتا ہے۔
1976میں ذوالفقار علی بھٹو نے خطے میں تین اہم باتوں کا ذکر کیا تھا اور وہ بھی ایک نجی محفل میں، اُنہوں نےکہا تھا ہمیں اس کیلئے اپنے آپ کو تیار کرنا ہو گا۔ ایران میں اسلامی شدت پسند شاہ ایران کا تختہ کر دیں گے۔ روس افغانستان پر حملہ کر دے گا اور پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی بڑھے گی۔یہ بات مجھے خود اس ملاقات میں شریک ایک سینئر پی پی پی رہنما نے بتائی۔
کیا آج کوئی بتا سکتا ہے آئندہ پانچ برسوں میں افغانستان اور پاکستان میں کیا ہونے جا رہا ہے۔ طے یہ کرنا ہےکہ پاکستان کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے کیسے بچایا جائے۔ ہمارے ایشوز ’’ٹک ٹاک‘‘ سے زیادہ اہم ہیں۔ ہماری قیادت کو سنجیدگی سے دیکھنا ہو گا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔