Time 14 جولائی ، 2021
بلاگ

طالبان کے عجیب حامی اور مخالف

معاف کیجئے لیکن پاکستان میں دونوں فریق جھک مار رہے ہیں۔ طالبان کے مخالفین بھی اور حامی بھی۔ مثلاً پختون قوم پرست جو اشرف غنی کے سپورٹر ہیں، کی توپوں کا رخ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہے جبکہ امریکہ، جس نے اشرف غنی حکومت کے ساتھ تاریخ کی سب سے بڑی بے وفائی کی اور افغان عوام کو تاریخی دھوکہ دیا،کے بارے میں خاموش ہیں۔

امریکیوں نے طالبان کے بعض رہنمائوں کو گوانتاناموبے سے رہا کیا۔ ملا برادر کو پاکستانی جیل سے رہا کروایا۔ طالبان سے سفری پابندیاں ہٹوائیں۔ انہیں قطر حکومت کا وی آئی پی مہمان بنایا ۔ اشرف غنی حکومت کو بائی پاس کرکے ان سے مذاکرات کئے ۔ پھر ان سے ایسی ڈیل کی جو سراسر طالبان کے فائدے میں تھی۔ اشرف غنی حکومت سے ڈنڈے کے زور پر طالبان کے پانچ ہزار قیدی رہا کروائے لیکن جواب میں ان سے افغانوں کے لئے جنگ بندی کی گارنٹی تک نہیں لی۔ لیکن تماشہ یہ ہے کہ اشرف غنی حکومت کے غم میں ہلکان ہونے والے پختون قوم پرست نہ امریکہ کی مذمت کررہے ہیں اور نہ اس کے خلاف جلوس نکال رہے ہیں۔ وہ سارا غصہ پاکستانی میڈیا پر نکال رہے ہیں۔

گزشتہ روز میں نے افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کے ساتھ انٹرویو کیا تو سوشل میڈیا پر میرے خلاف طوفان برپا ہوگیا حالانکہ میرے ساتھ انٹرویو سے قبل افغانستان کے مختلف چینلز پر ان کے سینکڑوں انٹرویو نشر ہو چکے ہیں۔ سہیل شاہین اور ڈاکٹر نعیم تو پھر بھی طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان ہیں لیکن افغان چینلز پر تو ہر روز جنگی محاذ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے انٹرویوز نشر ہو رہے ہیں۔ سہیل شاہین جیسے لوگوں کے انٹرویوز کی بھی ہمیں تب اجازت ملی جب پہلے امریکہ نے انہیں تسلیم کیا اور سی این این اور الجزیرہ پر ان کے درجنوں انٹرویوز آن ایئر ہوئے۔ جب تک امریکہ نے طالبان کو تسلیم نہیں کیا تھا(واضح رہے کہ قطر ڈیل پر دستخطوں کے دوران امریکہ نے روس، چین اور کئی دیگر ملکوں کے وزرائے خارجہ کو بھی دعوت دی تھی) تب تک میں نے اپنے پروگرام میں کبھی سہیل شاہین یا افغان طالبان کے کسی اور رہنما کو مدعو نہیں کیا تھا۔ 

پاکستان کی ہر مذہبی اور سیاسی جماعت افغانستان کے قضیے میں فریق ہے لیکن میں بطور صحافی فریق نہیں ہوں۔ حامد کرزئی کے سب سے زیادہ انٹرویوز میں نے کئے۔ ڈاکٹر اشرف غنی کے سب سے زیادہ انٹرویوز میں نے اسی جیو نیوز پر آن ایئر کرائے ۔ ڈاکٹر عبدﷲ عبدﷲ اور استاد محقق جیسے رہنماؤں کے انٹرویوز کرانے کا اعزاز بھی مجھے حاصل ہوا۔ باقی اگر پاکستان کے کسی رہنما کا انٹرویو نشر نہیں ہوتا تو وہ ریاستِ پاکستان کی طرف سے پابندی عائد ہے، ہماری طرف سے نہیں۔ ہماری عدالتیں اور سیاسی رہنما ہمت کرکے ہمیں وہ اجازت دلوادیں تو ہم ان کا انٹرویو کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔

ہم صحافی طالبان کی طرح بندوق اور بم کی طاقت رکھتے ہیں اور نہ سیاسی رہنماؤں کی طرح ہمارے پیچھے کارکنوں کی فوج ہے ۔ فرحت ﷲ بابر جیسے محترم کو بھی میرے سہیل شاہین کے ساتھ انٹرویو پر اعتراض ہے لیکن کیا وہ نہیں جانتے کہ کس طرح ان کے لیڈر بلاول بھٹو نے ڈیل ہوجانے کے بعد پی ٹی ایم کے محسن داوڑ کو پی ڈی ایم سے نکال باہر کیا۔ کیا اس پر بابر صاحب نے کوئی اعتراض کیا ؟ اس وقت بھی فرحت ﷲ بابر کے لیڈر بلاول بھٹو اور اے این پی ان قوتوں کے ایما پر پی ڈی ایم سے نکلے ہیں لیکن شاہین سے لڑنے کا درس دے رہے ہیں۔ 

الزام یہ لگایا جارہا ہے کہ افغان طالبان کی زیادہ موجودگی بلوچستان میں ہے۔ پاکستان میں اگرکوئی حکومت مکمل طور پر سلیکٹڈ ہے تو وہ بلوچستان کی حکومت ہے لیکن عوامی نیشنل پارٹی وزارتوں کی خاطر اس حکومت کا حصہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہاں ان قوتوں کے ہاتھ کیوں مضبوط کئے جا رہے ہیں جو اے این پی کی قیادت کے بقول افغانستان میں تباہی کی ذمہ دار ہیں۔ افغان تو افغان ہیں، اے این پی نے ماضی میں افغان طالبان کے علاوہ پہلے پاکستانی طالبان سے بھی معاہدے کر چکی ہے۔ وہ ان کے پاس نہیں آتے تھے بلکہ اے این پی کے وزرا اور افراسیاب خٹک صاحب مولانا صوفی محمد کی خدمت میں دیر حاضرہوتے تھے۔

اب آجائیے طالبان کی کامیابیوں پر جشن منانے والی پارٹیوں کی طرف۔ شاہ محمود قریشی ہوں،شیخ رشید ہوں، یا ہمارے دفاعی تجزیہ کار ، ایک طرف خوشی کے شادیانے بجارہے ہیں اور دوسری طرف پھر جب پاکستان پر مداخلت یا جانبداری کا الزام لگایا جاتا ہے تو یہ لوگ سیخ پا ہوجاتے ہیں۔ 

سچ تو یہ ہے کہ ان لوگوں کے ہوتے ہوئے طالبان اور پاکستان کوکسی دشمن کی ضرورت نہیں ۔ جب یہ لوگ اس طرح کے بیانات دیتے ہیں تو ایک طرف طالبان مخالف افغان ناراض ہوجاتے ہیں اور ان کے اس الزام میں وزن دکھائی دینے لگتا ہے کہ پاکستان طالبان کو سپورٹ کررہا ہے اور دوسری طرف خود طالبان ناراض ہوتے ہیں۔ طالبان اس وقت اپنی افغانیت اور خودمختاری کا تاثر دے کر ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ان پر پاکستان کا کوئی اثر نہیں لیکن جب یہ صاحبان اس طرح کے بیانات دیتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو پاکستان کے اثر سے آزاد ثابت کرنے کے لئے کوئی بیان دینے یا کوئی قدم اٹھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پاکستان کی طاقتور شخصیات گزشتہ چھ سات ماہ سے ہر حربہ استعمال کرکے طالبان کو سیاسی حل کے لئے آمادہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن طالبان نہیں مان رہے اورادھر ہمارے وزرا اور مذہبی تنظیموں کے رہنما ایسا جشن منارہے ہیں کہ جیسے بیس سالہ جنگ طالبان نے نہیں بلکہ شاہ محمود قریشی اور عمران خان نے لڑی ہو ۔

سب سے عجیب رویہ پاکستان کے مذہبی رہنماؤں، بعض ٹی وی اینکرز اور دفاعی تجزیہ کاروں کا ہے جو پاکستان میں تو جمہوریت چاہتے ہیں لیکن افغانستان میں طالبان کے نظام کے حامی ہیں حالانکہ نبی کریمﷺ نے ایک مومن کی صفت یہ بیان کی ہے کہ وہ اپنے بھائی کے لئے بھی وہی کچھ پسند کرتا ہے جو خوداپنے لئے پسند کرتا ہے۔

اب ان لوگوں کو اپنے ملک میں تو فنون لطیفہ بھی چاہئے اور ہر طرح کی معاشرتی آزادی بھی لیکن وہ افغان بھائیوں کے لئے ایک ایسی حکومت کے متمنی ہیں جس میں ان چیزوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ تاہم وہ وقت دور نہیں جب ان سب کی عقل ٹھکانے آجائےگی کیونکہ طالبان ہم پاکستانیوں کی طرح دوغلے پن کا شکار نہیں ۔ ان کے ہاں منافقت نہیں۔ وہ جو نظام اپنے لئے پسند کرتے ہیں، وہی پاکستانی بھائیوں کے لئے بھی چاہتے ہیں اور وہ اپنے اس نظام کا سلسلہ پاکستان تک دراز کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔