بلاگ
Time 14 جولائی ، 2021

جمہوریت بے نظیر سے عمران تک

وہ دونوں ایک ہی وقت میں برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے تھے۔ مزاج مختلف تھا مگر جان پہچان اور کچھ مشترکہ دوست ضرور تھے۔ عمران خان کھیل کر سیاست میں آئے اور بے نظیر بھٹو مارشل لا سے لڑ کر۔

ایک نے کرکٹ کا ورلڈ کپ جیت کر ملک کا نام روشن کیا تو دوسرے نے ایک طویل جدوجہد کی اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔ سیاست میں دونوں ایک دوسرے کے حریف رہے۔ ایک کو تیسری بار وزیر اعظم بننے سے پہلے ہی شہید کردیا گیا تو دوسرا آج ملک کا وزیر اعظم ہے۔

آپ اب اس کو حسنِ اتفاق ہی کہہ سکتے ہیں کہ عمران نے جب سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا اور اپنی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تو بے نظیر بھٹو دوسری بار وزیر اعظم کے منصب پر فائز تھیں۔ اس ملک میں جلدی جلدی وزیر اعظم اس لئے تبدیل ہوتے تھے کہ جلدی جلدی نکال دئیے جاتے تھے۔ یہاں صرف آمریت کے ادوار طویل رہے ہیں۔

عمران خان نے اپنی کتاب ’’پاکستان‘‘ میں اپنے دونوں سیاسی حریفوں بے نظیر اور نواز شریف اور پرویز مشرف سے اپنے تعلقات کا ذکر کیا ہے۔ بی بی کے بارے میں تنقید کے ساتھ ساتھ یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ ’’وہ اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی طرح کرشماتی شخصیت کی مالک تھیں‘‘۔

کراچی میں دونوں کی پہلی پریس کانفرنس میں نے کور کی تھی۔ ایک نے 1986 میں 70کلفٹن میں اور دوسرے نے1996 میں یعنی کوئی 10سال کے فرق سے تھی۔ بے نظیر کی پریس کانفرنس میں ٹارگٹ 11سال کی آمریت تھی اور عمران کا ٹارگٹ بی بی اور نواز کی حکومتیں۔

یہاں آپ کو ایک دلچسپ واقعہ سناتا چلوں۔ عمران نے سیاست میں آنے کا اعلان کیا تو میں نے بلاول ہاؤس کی ایک تقریب میں بی بی سے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی۔ ’’خوش آمدید۔ سیاست کسی کی میراث نہیں۔ یہ ایک کھلا میدان ہے جہاں کوئی بھی آ سکتا ہے اور کارکردگی کی بنیاد پر آگے بڑھ سکتا ہے‘‘۔ پھر ہنستے ہوئے کہا، ’’یہاں بھی ہار جیت کھیل کا حصہ ہوتی ہے اگر میچ فکس نہ ہو‘‘۔

عمران خان کی سیاست میں آنے کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔ میری نظر میں اُن کی فتح ایک ردعمل تھا دو بڑی سیاسی جماعتوں کی ناقص کارکردگی کا اور شاید اس سے زیادہ ان کی ایک دوسرے پر الزام تراشیوں اور طاقتور حلقوں کے اشارہ یا ساتھ مل کر حکومت گرانے کا۔ اسی لئے انہوں نے خود کواور اپنی جماعت کو تیسرے آپشن اور متبادل کے طور پر پیش کیا۔ ان کے کریڈٹ میں نئے ووٹرز کو گھروں سے نکال کر سیاست میں لانا، کئی نوجوانوں کو پارلیمنٹ کا حصہ بنانا اور اپنے سپورٹرز کو امید دیناشامل تھی مگر وہ حکومت بنانے کے بعد پچھلے تین برسوں میں کوئی بڑی ’’تبدیلی‘‘ لانے میں تاحال کامیاب نہیں ہوسکے کیونکہ لوگوں کو حد سے زیادہ امیدیں دلا دی تھیں۔

لہٰذا 2018 میں اگر لوگوں نے امید کو ایک ووٹ دیا تھا تو 2023 میں وہ کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ دیں گے یا مسترد کریں گے۔ اسی عمل کا نام جمہوریت ہے۔ بس انتخابات فری اور فیئر ہوں۔

1983 میں عمران خان کو پہلی بار سیاست میں آنے کا مشورہ جنرل ضیاءالحق نے وفاقی وزیر بنانے کی پیشکش کرکے دیا تھا۔ کمال ہے ویسے اس ملک کے آمروں کا۔ اپنے غیرآئینی اقتدار کو قائم رکھنے کے لئے کیسے کیسے لوگوں کا استعمال کرتے ہیں۔

ایوب سے مشرف تک ’’اہل اور نااہل‘‘ سیاست دانوں کے فیصلے یہی کرتے ہیں۔عمران نے معذرت کرلی کہ میں کرکٹ میں رہنا چاہتا ہوں مگر اس سوچ نے عمران کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ کرکٹ سے ریٹائر ہوئے تو نواز شریف کی دوسری حکومت کے خاتمہ کے بعد معین قریشی کی کابینہ میں وزیر کھیل کی پیشکش ہوئی مگر اس بار عمران نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ میں شوکت خانم اسپتال کی تعمیر میں مصروف ہوں۔

یہ وہی زمانہ تھا جب ISIکے سابق سربراہ جنرل حمید گل مرحوم اپنا ایک سیاسی گروپ بنانا چاہتے تھے جس میں وہ عمران اور عبدالستار ایدھی جیسے لوگوں کو شامل کرنا چاہتے تھے۔ مولانا تو مارے خوف کے لندن چلے گئے کیونکہ وہ اس سے دور رہنا چاہتے تھے۔ عمران کچھ عرصہ ساتھ رہے۔ ’’مجھے جلد یہ اندازہ ہوگیا کہ ان کا ایجنڈا کیا ہے اور میں پیچھے ہٹ گیا‘‘۔

عمران نے مجھ سے ایک بار انٹرویو میں انکشاف کیا۔عمران اور نواز شریف کی جان پہچان اور دوستی کرکٹ کی وجہ سے ہوئی۔ ان کے بقول میاں صاحب کرکٹر بننا چاہتے تھے، ابا نے سیاست دان بنادیا۔

کرکٹ کا ایک دلچسپ واقعہ بھی لکھا ہے۔ ’’جب وہ وزیر اعلیٰ پنجاب تھے تو ویسٹ انڈیز کی ٹیم پاکستان کا دورہ کر رہی تھی۔ لاہور میں ایک پریکٹس میچ کے دوران پیغام ملا کہ ٹیم کی قیادت میاں صاحب نے کرنی ہے۔ میری پریشانی صرف یہ تھی کہ جن بالرز کا سامنا کرتے ہوئے دنیا کے مایہ ناز بیٹسمین بھی گھبراتے ہیں میاں صاحب یہ خطرہ کیوں مول لے رہے ہیں۔ اچانک دیکھا تو وہ مدثر نذر کے ساتھ بغیر ہیلمٹ کھیلنے چلے گئے۔ شکر ہے پہلی بال بیٹ اٹھانے سے پہلے ہی وکٹ کیپر کے پاس چلی گئی اور دوسری بال پر وہ آئوٹ ہوگئے۔

پچھلے تین سال سے وہ عمران کے بائونسرز کا مقابلہ کررہے ہیں چاہے وہ تیزی سے رن لیتے لیتے لندن ہی کیوں نہ نکل گئے ہوں۔ کپتان کے لئے آج یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ وہ میاں صاحب کا ووٹ بینک توڑنے میں اب تک کامیاب نہیں ہوسکا۔اب اس کو آپ سیاست کا گورکھ دھندا کہیں یا کچھ اور کہ 2002 میں عمران کا جنرل پرویز مشرف کا ساتھ چھوڑنے کی جو وجہ بنی وہ آج اس کی مجبوری ہے۔ میری مراد ’’گجرات کے چوہدریوں‘‘ سے ہے۔ اب اگر پنجاب جیتنا ہے تو یہ تو کرنا پڑے گا۔

عمران اور ان کے دو بڑے سیاسی حریفوں میں ایک بنیادی فرق سیاسی اٹھان کا بھی ہے۔ عمران سیاست میں آئے تو نہ وہ سیاست کی الف ب سے واقف تھے نہ ان کے ساتھی۔ میاں صاحب کے ساتھ بھی یہی مسئلہ تھا مگر ٹیم تجربہ کار تھی۔ دونوں کا تعلق غیرسیاسی گھرانوں سے تھا۔

ان کے مقابلے میں بے نظیر خود بھی سیاسی تھیں اور ایک انتہائی تجربہ کار ٹیم ساتھ تھی۔ مگر اپنے دونوں سیاسی حریفوں کے مقابلے میں عمران ٹی وی کی اسکرین کی زینت سیاست میں آنے سے پہلے سے تھے ایک کرکٹ ہیرو کے طور پر۔

اب پی پی پی کی ٹیم بدل گئی ہے۔ بی بی کی جگہ آصف زرداری اور بلاول بھٹو نے لے لی ہے، اس بار مقابلہ تین جماعتوں اور ان کی حکومتوں کے درمیان ہوگا۔ بس میچ فری اور فیئرہو جیتے کوئی بھی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔