17 جولائی ، 2021
پاکستانی عوام اور ریاست کو افغانستان کے فرنٹ پر گمراہ کرنے کی ذمہ داری بڑی حد تک ان ریٹائرڈ جرنیلوں اور سفارتکاروں پر عائد ہوتی ہے جو ریٹائرڈ ہونے کے بعد بھی اپنے آپ کو ریٹائرڈ نہیں سمجھتے۔
یہ لوگ ماضی میں جیتے ہیں، بات کرتے وقت اپنے دور کے قصے کہانیوں کو اپنی مرضی کا رنگ دے کر بیان کرتے ہیں اور اپنے آپ کو عقل کل سمجھ کر یہ تاثر دیتے ہیں کہ آج بھی افغانستان ویسا ہی ہے جیسا 20، 30 سال قبل تھا یا پھر عالمی اور علاقائی کرداروں کا رول آج بھی وہی ہے جو کئی سال پہلے تھا۔
یہ صاحبان پاکستانی قوم کو یہ پٹی پڑھاتے رہے کہ القاعدہ تو محض بہانہ ہے اور حقیقت میں امریکہ افغانستان پر قبضہ کرکے وسط ایشیا کے وسائل پر تصرف چاہتا ہے لیکن آج وسط ایشیائی ریاستوں کا سرپرست روس بھی کہہ رہا ہے کہ اچانک فوجی انخلا کرکے امریکہ نے افغانستان اور خطے کو بحران میں مبتلا کردیا۔ افسوس کہ یہ لوگ اب بھی باز نہیں آئے اور پاپولر لائن اپنا کر قوم کو مزید گمراہ کرنے اور پاکستان کی مشکلات بڑھانے کا موجب بن رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کو یقین تھا کہ نائن الیون القاعدہ ہی نے کیا ہے۔ وہ القاعدہ کو اپنے لئے خطرہ سمجھ رہا تھا۔ نائن الیون کے بعد وہ باؤلے پن کا شکار بھی ہو گیا تھا چنانچہ اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی متفقہ قرار داد کے تحت اپنے اتحادیوں کے لاؤ لشکر کے ساتھ افغانستان پر حملہ آور ہوا۔
امریکہ کی اس کارروائی کی چین، روس اور ایران سمیت کسی ملک نے مخالفت نہیں کی تھی کیونکہ اس سے قبل یہ سب طالبان کی حکومت کو اپنے لئے خطرہ سمجھ رہے تھے۔ تب چیچن مجاہدین اور اسلامک موومنٹ آف ازبکستان کے عسکریت پسند طالبان افغانستان میں تھے۔
روس اور وسط ایشیائی ریاستیں افغانستان میں طالبان کی مذہبی ریاست کی موجودگی کو اپنے لئے خطرہ سمجھ رہی تھیں، اس لئے وہ شمالی اتحاد کی متوازی حکومت کو سپورٹ کررہی تھیں۔ چین کے سنکیانگ صوبے کے علیحدگی پسندوں کی تنظیم (ای ٹی آئی ایم) کے لوگ بھی افغانستان میں تھے جبکہ وہ بھی اپنے پڑوس میں کٹر مذہبی حکومت سے پریشان تھا۔
ایران اور طالبان کے تعلقات تواِس قدر خراب تھے کہ مزار شریف میں اُس کے ڈپلومیٹس کی ہلاکتوں کے بعد وہ اپنی فوج کو افغان بارڈر پر متحرک کر چکا تھا۔ یوں جب امریکہ اور اس کے اتحادی طالبان حکومت کے خاتمے کے لئے افغانستان پر حملہ آور ہوئے تو یہ سب ممالک خوش تھے لیکن جب امریکہ نے افغانستان کو سنبھالے بغیر عراق پر حملہ کیا۔
ایران سے دشمنی برقرار رکھی۔ چین اور روس سے تعلقات بگاڑ لئے اور ان سب ممالک کے مفادات کے خلاف پالیسیاں اپنالیں تو ان سب نے بھی اپنے اپنے طریقے سے طالبان کو سپورٹ کرنا شروع کیا۔ یہی حالت پاکستان کی بھی تھی لیکن امریکہ نے اچانک گیم الٹا دی۔
حامد کرزئی نے بالخصوص بڑی کوششیں کیں کہ طالبان سے مفاہمت کا راستہ نکلے جبکہ پاکستان کی بھی مسلسل یہ کوشش رہی کہ طالبان کسی طرح افغان سسٹم میں جگہ پالیں لیکن امریکہ نے ایسی کسی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ شروع میں وہ طالبان کو بزورِ طاقت کچلنے پر مصر رہا اور جب اسے احساس ہو گیا کہ وہ ایسا نہیں کر سکتا تو اس نے طالبان سے براہِ راست ڈیل کی کوشش کی۔
اس نے پہلی کوشش صدر اوباما کے دور میں کی اور تب قطر میں طالبان کو دفتر کھولنے کی اجازت دی لیکن حامد کرزئی چونکہ اس گیم کو سمجھ رہے تھے اور وہ امریکیوں کو چیلنج کرنے کا حوصلہ بھی رکھتے تھے، اس لئے انہوں نے یہ شرط رکھ دی کہ مذاکرات یا تو ان کی حکومت سے ہوں گے یا نہیں ہوں گے۔
انہوں نے احتجاجاً قطر سے اپنا سفیر بھی واپس بلا لیا اور اس کے سفیر کو بھی نکال دیا جس کی وجہ سے امریکیوں نے وہ سلسلہ ترک کردیا۔ اب جینوا معاہدے کے تجربے کی روشنی میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ غیرملکی افواج کی موجودگی میں بین الافغان مذاکرات کئے جاتے۔
تب امریکہ اور اس کے اتحادی افغان حکومت کو مجبور کر سکتے تھے جبکہ طالبان پر پاکستان، ایران، روس اور چین جیسے ممالک کا اثر زیادہ تھا لیکن امریکہ نے طالبان کے ساتھ ایسی ڈیل کی جس کی وجہ سے طالبان فاتح بن کر ابھرے اور اب جس تیزی کے ساتھ افغانستان کے اضلاع ان کی جھولی میں گررہے ہیں تو وہ کیوں کر کسی سیاسی نظام کا حصہ بننے پر تیار ہوں گے۔
ساری پیش رفت ایسے انداز میں ہو رہی ہے کہ جس سے شک جنم لے رہا ہے کہ خود امریکہ کی خواہش ہے کہ طالبان افغانستان پر قابض ہو جائیں یا پھر یہاں پر بدترین خانہ جنگی ہو جائے۔ جنوب کی بجائے چین اور وسط ایشیائی ریاستوں سے متصل صوبوں میں کئی اضلاع پر بغیر مزاحمت کے طالبان کے کنٹرول نے اس تھیوری کو مزید تقویت بخشی۔ اب چین، روس، وسط ایشیائی ریاستوں کے ہاں دوبارہ وہ خدشات جنم لینے لگے کہ جو نائن الیون سے قبل تھے۔ دوسری طرف پاکستان بری طرح پھنس گیا۔ ایک تو طالبان پر اس کا وہ اثر نہیں رہا جو پہلے تھا۔
دوسری طرف امریکہ اور مغربی اتحادی اپنی ناکامی یا پھر خانہ جنگی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے جارہے ہیں۔ ادھر افغان حکومت امریکہ کی بےوفائی کے تذکرے کی ہمت یا اپنی ناکامیوں کے اعتراف کی بجائے سب الزام پاکستان کو دے رہی ہے۔ اسی طرح مزید مہاجرین کی آمد کا خدشہ ہے لیکن سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ پاکستان میں ٹی ٹی پی دوبارہ قوت پکڑے گی اور یہاں طالبانائزیشن کو فروغ ملے گا۔
پاکستان، روس، ایران اور چین اس الجھن کا شکار ہوئے ہیں کہ وہ اس مرحلے پر طالبان کو ناراض کرنے کا رسک لیں یا پھر ان کی ضد کے آگے سرنڈر کر دیں۔ ایک اور چیلنج یہ ہے کہ سوویت یونین کی طرح امریکہ بکھر گیا ہے اور نہ اقتصادی لحاظ سے دیوالیہ ہو گیا ہے۔
اس کی فوج افغانستان سے نکل رہی ہے لیکن امریکہ نہیں نکل رہا۔ افغانستان کو چلانے کے لئے پیسہ اب بھی امریکہ ہی دے گا۔ سوویت یونین کی طرح وہ لاتعلق نہیں ہوگا بلکہ کچھ فاصلے پر خلیج میں اس کے20 سے زائد فوجی اڈے موجود ہیں۔ وہ فوج نکال کر بھی خطے کی مینجمنٹ کو اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتا ہے۔ اب اس کا بنیادی ہدف چین ہے۔ وہ افغانستان سے فوج کو نکال کر اسے چین اور روس کے لئے درد سر بنانا چاہے گا۔
کچھ عرصہ بعد پاکستان کے آگے لکیر کھینچ دی جائے گی کہ وہ چین کے ساتھ جاتا ہے یا امریکہ کے۔ اگر پاکستان چین کا انتخاب کرتا ہے تو پھرپہلی فرصت میں پاکستان سے باقی محاذوں پر بھی حساب برابر کیا جائے گا اور افغانستان کو بھی اس کے لئے درد سر میں تبدیل کردیا جائے گا۔ تبھی تو میں کئی ماہ سے عرض کرتا رہا ہوں کہ پاکستان، روس، چین اور ایران کو مل کر افغان مسئلے کا حل نکالنا چاہئے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔