24 جولائی ، 2021
ازبکستان اور پاکستان نہ صرف جغرافیائی طور پر قریب کے ممالک ہیں بلکہ ان میں بےشمار مشترکات پائے جاتے ہیں۔ ثمر قند اور بخارا سے آنے والے اولیاء کرام نے برصغیر میں اسلام پھیلایا تو ازبکستان ہی سے آنے والے مغلوں نے صدیوں ہندوستان پر حکومت کی۔
دونوں ازبکستان اور پاکستان اکثریتی مسلم آبادی والے ملک ہیں، گو سوویت یونین کے زمانے میں ازبک آبادی کی مسلم شناخت کو دبا کر رکھا جاتا تھا۔ بہت سارے مشترکات اور متشابہات میں سے ایک نمایاں فرق بھی ہے۔ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے جہاں انتخابات ہوتے ہیں اور انہی انتخابات کے ذریعے سے حکومتیں تبدیل ہوتی ہیں جبکہ ازبکستان میں ابھی تک آمرانہ نظام ہے۔ سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد سے وہاں مردِ آہن اسلام عبدالغنی کریموف 2016 تک بلاشرکت غیرے حکمران رہے، ان کی وفات کے بعد وزیراعظم شوکت مرزایوف صدر اور ملک کے حکمران بن گئے ہیں۔
پاکستانی وزیراعظم عمران خان حال ہی میں ازبکستان کے دورے پر گئے تو وہاں ارشاد فرمایا کہ میں ازبکستان کی تاریخ کو یہاں کے لوگوں سے بھی زیادہ جانتا ہوں، ان کا اشارہ شاید وہاں کے صوفی سلسلوں اور ان کی برصغیر آمد کی طرف تھا لیکن ازبکستان کی سیاست میں بھی پاکستانیوں کے لئے دلچسپی کے کافی پہلو ہیں۔
اسلام عبدالغنی کریموف 1991سے 2016 تک ازبکستان کے صدر رہے، اس عرصے میں ان کی صاحبزادی گلنارا کریموف (عمر 48سال) کو ایک شہزادی اور صدر کی خصوصی معتمد کے طور پر پیش کیا جاتا رہا۔ اب یہی گلنارا منی لانڈرنگ اور یورپ میں جائیدادیں رکھنے کے الزام میں گھر میں نظر بند ہیں، اس سے پہلے گلنارا باقاعدہ جیل میں رہیں۔ گلنارا کی دوسری بہن لولا کریموف ملک میں نہیں رہتیں، وہ زیادہ تر وقت یورپ اور امریکہ میں گزارتی ہیں۔ جس طرح گلنارا پر لندن میں پراپرٹی رکھنے کے الزامات ہیں تقریباً اسی قسم کے الزامات پاکستان کے سابق حکمران نواز شریف کی بیٹی مریم نواز پر بھی ہیں اور انہیں انہی الزامات کے تحت جیل بھی کاٹنی پڑی۔ اسی لئے گلنارا کو ازبکستان کی مریم کہہ لیں یا مریم کو پاکستان کی گلنارا کہہ لیں، دونوں متشابہات درست ہوں گے۔
پاکستانی وزیراعظم عمران خان ازبکستان کے دورے سے بہت خوش واپس آئے۔ شاید ثمرقند اور بخارا کی اسلامی عمارتیں دیکھ کر انہیں روحانی سکون ہوا ہوگا یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انہیں ازبکستان کا کنٹرولڈ نظام پسند آیا ہو اور وہ چاہتے ہوں کہ ایسا ہی نظام پاکستان میں آ جائے اور شاید وہ مریم کو بھی ویسا ہی سبق سکھانا چاہتے ہوں جیسا گلنارا کو ازبکستان میں سکھایا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ خانِ اعظم کو چین کا نظام بھی بہت پسند ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ جیسی سزائیں چین میں دی جاتی ہیں ویسی ہی پاکستان میں بھی دی جائیں۔
ازبکستان کی کہانی میں اور بھی دلچسپ چیزیں ہیں، موجودہ صدر شوکت مرزایوف آج کل اپنے ملک کے میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں اور پراپیگنڈہ یہ کیا جا رہا ہے کہ شوکت مرزایوف تبدیلی لے کر آئے ہیں، اسلام کریموف کے زمانے میں اقتصادی حالات اچھے نہیں تھے جبکہ اب بہت بہتری آرہی ہے گویا اس حوالے سے بھی ازبکستان اور پاکستان مماثل ہیں۔ یہاں بھی عمران خان کے آنے سے تبدیلی آگئی ہے اور حکومتی ترجمانوں کے مطابق حالات پہلے سے بہتر ہو گئے ہیں گویا ازبکستان کے پیرائے میں کہا جائے تو نواز شریف، اسلام کریموف تھے اور شوکت مرزایوف عمران خان جیسے ہیں۔
2016میں ازبک صدر بننے والے شوکت مرزایوف، اسلام کریموف کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے اسی لئے کریموف کو سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا بظاہر شوکت مرزایوف ان پر براہ راست تنقید نہیں کرتے لیکن سرکاری میڈیا دونوں ادوار میں جو فرق بتاتا ہے اس سے لگتا ہے کہ اب کریموف دور کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ شوکت مرزایوف کے دور میں ان کی صاحبزادی سعیدیہ مرزایوف کو ڈپٹی ہیڈ آف انفارمیشن بنایا گیا ہے، صحافت اور خواتین کی آزادی کے حوالے سے وہ اکثر اظہار خیال کرتی ہیں۔ پچھلے دنوں ان کی سالگرہ کی تقریبات کو سرکاری طور پر منایا گیا گویا گلنارا یا مریم نواز کی طرح سعیدیہ کو جانشین کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
سیاست کا ذکر ہو تو بات ایک یا دو نسلوں تک محدود نہیں رہتی، پوتوں اور نواسوں تک چلی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ پچھلے دنوں وزیراعظم عمران خان نے مسلم لیگ ن کو طعنہ مارا کہ نواز شریف پاکستان کے کاغذوں میں بیمار ہیں اور لندن میں اپنے نواسے جنید صفدر کے پولو میچ دیکھ رہے ہیں جس کے جواب میں مریم نے عمران خان کے بچوں کی یہودی گھرانے میں پرورش کا طعنہ مارا اور جواب الجواب میں جمائما خان نے انہیں ANTI SEMITICقرار دے دیا۔
اسی تناظر میں ازبکستان کی سیاست بھی دلچسپ ہے، اسلام کریموف کی بیٹی گلنارا کے بیٹے کا نام اسلام کریموف جونیئر ہے، کل کو جونیئر اپنے نانا کی پیڑھی دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ موجودہ صدر شوکت مرزایوف کا خاندان بھی اس دوڑ میں کریموف خاندان سے پیچھے نہیں، شوکت مرزایوف کے ایک نواسے کا نام بھی شوکت مرزایوف جونیئر ہے، ہو سکتا ہے کہ کل کو وہ بھی چاہے گا کہ اسے بھی اپنے نانا کی طرح ملک کی صدارت ملے۔
آنے والے دنوں میں جہاں افغانستان کے حالات پاکستان کو متاثر کریں گے وہاں افغانستان کے قریب سابق روسی ریاستوں کے حالات بھی ہمارے لئے بہت اہم ہوں گے۔ تاجکستان اور ازبکستان تو باقاعدہ افغانستان کے اسٹیک ہولڈر ہیں کیونکہ عبداللہ عبداللہ تاجک نہیں جبکہ عبدالرشید دوستم ازبک ہیں، اس لئے ازبکستان اور تاجکستان طالبان کے حوالے سے کیا پالیسی اختیار کرتے ہیں، یہ پاکستان کے لئے اہم اشارہ ہوگا۔
خیال یہی کیا جا رہا ہے کہ تاجک اور ازبک اینٹی طالبان موقف اختیار کریں گے یوں پاکستان کے لئے بطور پڑوسی ملک مشکلات بڑھیں گی۔ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان اشرف غنی حکومت کی سیاسی مدد تو کرنا چاہتا ہے لیکن ملٹری آپریشن کرنے کو تیار نہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں جنگ پاکستان کے اندر تک آ جائے گی۔ پاکستان اس حوالے سے کافی تشویش میں مبتلا ہے اگر افغانستان میں گڑ بڑ ہوتی ہے تو اس کا لازمی اثر پاکستان پر پڑے گا۔
طالبان کی اکثریت پشتون ہے اور پشتون پاکستان کے ہمسائے ہیں اس لئے اگر افغانستان میں جنگ ہوئی تو پشتون مہاجرین پاکستان کا رخ کریں گے اور یوں پاکستان بالواسطہ طور پر افغان خانہ جنگی کا حصہ بن جائے گا۔ کاش سنٹرل ایشیا کے ممالک ازبکستان، تاجکستان، قازقستان اور کرغزستان وغیرہ پاکستان کے ساتھ مل کر حکمت عملی بناتے تو یہ علاقہ امن و سلامتی کا مرکز بن سکتا ہے۔