Time 29 جولائی ، 2021
بلاگ

والدین جاگ جائیں

نور مقدم کے بہیمانہ قتل نے بہت سوں کو خوفزدہ کر دیا ہے۔ اِس واقعہ نے کئی ایسے والدین اور نوجوانوں کی بھی آنکھیں کھول دیں جو مغربی کلچر سے مرعوب ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کی طرز کے نعروں سے متاثر تھے اور یہ یقین رکھتے تھے کہ جب اولاد جوان ہو تو اُس کی مرضی، وہ جو چاہے کرے، دوسروں کو اُن کی زندگی میں مداخلت کا کوئی حق نہیں۔ غیرمحرم مردوں اور عورتوں میں دوستی میں کوئی مسئلہ نہیں، دونوں اپنی مرضی سے بغیر شادی کے اگر ایک دوسرے کے ساتھ رہنا چاہیں تو اس میں بھی کوئی قباحت نہیں۔ کوئی شراب پیئے یا رات گئے پارٹیاں کرے، یہ تو آج کی ’’مہذب دنیا‘‘ کی ضرورت، رواج اور ترقی کی علامت ہے۔

اِس ترقی اور آزادی کے نام پر ہی قاتل ظاہر جعفر کے حوالے سے جو کچھ سامنے آ رہا ہے کہ کس طرح وہ رات گئے نامحرم لڑکیوں اور لڑکوں کےلئے پارٹیوں کا انتظام کرتا تھا جن میں شراب کی محفلیں چلتیں تھیں، آئس اور دوسرے قسم کے نشے بھی اُن پارٹیوں میں شرکت کرنے والوں کےلئے دستیاب ہوتے۔ 

ہمارے معاشرے میں بہت سی خرابیاں ہیں۔ عورتوں کےساتھ بدسلوکی بھی ہوتی ہے، اُن پر تشدد کے واقعات بھی بڑھ رہے ہیں، کمزور اور بےبس خواتین کو زیادتی کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے، اُنہیں وراثت میں حصہ بھی نہیں دیا جاتا۔ ہماری ریاست، معاشرے، خاندان اور انفرادی طورپر ہم سب کو کوشش کرنی چاہئے کہ ان خرابیوں کو دور کریں تاکہ ہمارے معاشرے میں عورت محفوظ ہو سکے اور جن مسائل، مشکلات اور جرائم کا اُن کو سامنا ہے اُن کا خاتمہ ممکن ہو جس کے لئے تربیت اور کردار سازی کے ساتھ ساتھ قوانین اور نظام میں بھی بہتری لانے کی اشد ضرورت ہے۔ 

لیکن خدارا پہلے سے موجود ایک بیماری کو دور کرنے کے لئے ویسی ہی ایک اور بیماری کو حل کے طور پر مت پیش کریں جس کی وجہ سے عورت کو مغرب میں بدترین استحصال کا سامنا ہے، جہاں عورت بالکل غیرمحفوظ ہے، مردوں کے ہاتھ کھلونا بن چکی ہے۔ 

برابری، آزادی اور حقوقِ نسواں کے نعرے جتنے بھی آپ کو پُرکشش لگیں، یہ دراصل عورت کو مرد کے ہاتھوں نشانہ بنانے اور اُنہیں استعمال کرنے کے بدترین ہتھکنڈے ہیں ماں باپ سمجھ لیں کہ آزادی کے نام پر اُن کی اولاد کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ ایسی باتوں کو مت مانیں کہ ماں باپ کون ہوتے ہیں کہ جوان بیٹے یا بیٹی پر اپنی مرضی چلائیں۔ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کریں، اُنہیں اسلام پڑھائیں، انسانیت سکھائیں، درس دیں کہ کسی سے زیادتی نہ کریں، کسی کا حق نہ کھائیں، شرم و حیا قائم کریں، باہر نکلیں تو بتا کر جائیں کہ کہاں جا رہے ہیں، بیٹوں کو بتائیں کہ باہر نکلیں تو خواتین کا احترام کریں اور کسی بھی خاتون، چاہے وہ کسی بھی حلیہ میں آپ کو نظر آئے، اُسے بُری نظر سے نہ دیکھیں، نہ ہی اُس کے ساتھ کسی بھی قسم کی بدسلوکی کریں۔ 

بیٹیوں کو بتائیں کہ گھر اُن کے لئے بہترین جگہ ہے لیکن جب گھر سے نکلیں تو اجازت لے کر اور بتا کر نکلیں کہ کہاں جا رہی ہیں، باپردہ ہو کر نکلیں۔ بیٹوں کو بھی بتائیں اور بیٹیوں کو بھی سکھائیں کہ نا محرم مردوں، عورتوں کے ساتھ دوستی کا ہمارے دین اور ہمارے معاشرے میں کوئی تصور نہیں، اس لئے باہر کسی مرد عورت سے بات کرنی ہو تو اُتنی بات کریں جتنی ضروری ہو۔ اسکول کالج یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے اپنیبیٹیوں کو بتائیں کہ تعلیمی اداروں میں اُن کے جانے کا مقصد تعلیم کا حصول ہے۔

افسوس کہ ہمارے تعلیمی ادارے لڑکے لڑکیوں کی دوستیاں اور افیئرز کی آماجگاہ بنتےجا رہے ہیں جن کو ایسے ماحول سے پاک کرنا اگر تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے تو والدین کو بھی اپنے بچوں پر اس سلسلے میں کڑی نظر رکھنی چاہئے کہ کہیں پڑھائی کی بجائے اُن کے بچے کسی اور طرف ہی تو نہیں چل پڑے۔ اب تو آزادی، برابری اور ترقی کے نام پر تباہی پھیلانے والوں کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں منشیات کا استعمال بھی بہت بڑھ گیا ہے اور حکومتی اطلاعات کے مطابق ایسے طلبا و طالبات کی تعداد اسلام آباد کے تعلیمی اداروں خصوصاً انگریزی میڈیم اور پرائیویٹ اداروں میں بہت زیادہ ہے۔ نہ صرف لڑکے بلکہ لڑکیاں بھی بڑی تعداد میں نشہ کر رہی ہیں۔ 

والدین یاد رکھیں اِن اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہمارے بیٹے بیٹیاں تعلیم کے لئے جاتے ہیں گویا ہم اس معاملے سے خود کو لاتعلق نہیں رکھ سکتے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں پر نظر رکھیں، تعلیمی اداروں کی انتظامیہ سے ملیں اُن پر پریشر ڈالیں کہ ہم بچوں کو تعلیمی اداروں میں علم کے حصول کے لئے بھیجتے ہیں نہ کہ لڑکے لڑکیوں میں دوستیوں، مغرب زدہ پارٹیوں، فیشن شوزیا نشہ کرنے کے لئے۔ 

والدین جاگ جائیں، اپنے بچوں کو اُن سنگین حملوں اور حملہ آوروں سے بچائیں جو گھر سے باہر آپ کے معصوم بیٹے بیٹی کو شکار کرنے کے لئے تاک لگائے ہوئے ہیں۔ نور مقدم واقعہ سے سبق حاصل کریں، خوف زدہ ہیں تو اپنے بچوں کی حفاظت اور اُن کی تربیت کے لئے پہلے سے بہت تدبر سے کام لیں اور اپنا کردار ادا کریں۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔