04 اگست ، 2021
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کی تاریخ کئی عشروں پر محیط ہے۔ سعودی عرب کا شمار پاکستان کے اُن دوست ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے ہر اچھے اور برے وقت میں پاکستان کی سفارتی اور مالی مدد کی۔ پاک سعودیہ لازوال دوستی کے اِس سفر میں کئی اتار چڑھائو بھی دیکھنے میں آئے اور یمن، ایران اور کشمیر کے مسئلے پر اختلافات پیدا ہوئے مگر ان اختلافات کو افہام و تفہیم کے ذریعے سفارتی سطح پر حل کرلیا گیا۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال پاک سعودیہ تعلقات میں اُس وقت سرد مہری دیکھنے میں آئی جب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مسئلہ کشمیر پر موثر کردار ادا نہ کرنے پر او آئی سی کو تنقید کا نشانہ بنایا جسے سعودی عرب نے خود پر تنقید سے تعبیر کیا اور تعلقات اتنی نچلی سطح پر آگئے کہ سعودی عرب نے پاکستان سے ایک ارب ڈالر کی واپسی کا مطالبہ کیا اور ادھار تیل کی فراہمی بند کردی۔
ایسے میں دو بھائیوں کے درمیان غلط فہمیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارتی آرمی چیف نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور بھارت اور سعودی عرب کے درمیان فوجی تعاون بڑھانے پر زور دیا۔ بھارت کی یہ کوشش تھی کہ وہ موقع سے فائدہ اٹھاکر اور غلط فہمیوں کو ہوا دے کر سعودی عرب میں پاکستان کا اثر و رسوخ ختم کر دے اور سعودی عرب میں تعینات پاکستانی افواج اور افرادی قوت کے بدلے بھارتی مسلمان افواج اور افرادی قوت جگہ لے سکے تاہم یہ بات قابل ستائش ہے کہ ایسے میں پاکستان میں تعینات سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی جو پاکستان کے دوست ہیں اور اپنے دل میں پاکستانیوں کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں، نے تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاک سعودی تعلقات کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا اور دفتر خارجہ کے او آئی سی کے متعلق بیان پر کسی سخت ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔
بعد ازاں سعودی سفیر نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی اور پاک سعودی تعلقات دوبارہ بحال کرنے کیلئے کوششوں کا آغاز کیا جن کے نتیجے میں وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا دورہ سعودی عرب ممکن ہو سکا جس سے غلط فہمیوں کا خاتمہ ہوا اور بھارت کو منہ کی کھانا پڑی اور اِس حوالے سےپاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید المالکی کا کردار قابل ستائش ہے۔
گزشتہ دنوں سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان آل سعود کا دورہ پاکستان اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اپنے اِس اہم دورے کے دوران سعودی وزیر خارجہ نے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی کے علاوہ وزیراعظم پاکستان، صدر مملکت اور آرمی چیف سے بھی ملاقاتیں کیں۔ دونوں وزرائے خارجہ کے مشترکہ بیان کے مطابق سعودی پاکستان سپریم کوآرڈی نیشن کونسل دوطرفہ تعلقات کو ایک نئی سطح پر لے جائے گی۔ سپریم کوآرڈی نیشن کونسل کے قیام کا فیصلہ وزیراعظم عمران خان کے دورہ سعودی عرب کے موقع پر کیا گیا تھا۔
سعودی وزیر خارجہ کے حالیہ دورے کو اس لئے بھی زیادہ اہمیت دی جارہی ہے کہ یہ ایک ایسے موقع پر کیا گیا جب امریکہ اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ سعودی وزیر خارجہ کے دورے کے دوران افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال خصوصی طور پر زیر بحث آئی اور ایک مشترکہ حکمتِ عملی پر بھی اتفاق ہوا۔
یاد رہے کہ افغانستان پر سوویت قبضے کے دوران پاکستان اور سعودی عرب نے امریکہ کے ساتھ مل کر افغان جہاد کو سپورٹ کیا جس کے نتیجے میں سوویت یونین کو شکست ہوئی اور طالبان حکومت قائم ہوئی۔ پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ان 3 ممالک میں شامل تھے جنہوں نے 1996ء میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا۔
یہ امر باعث مسرت ہے کہ پاک سعودی دوطرفہ تعلقات روایتی گرمجوشی پر مشتمل درست سمت کی جانب گامزن ہیں مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ سعودی عرب کی ماضی کی قیادت عمر رسیدہ بادشاہوں پر مشتمل تھی جو پاکستان کیلئے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتی تھی اور پاکستان سے برادرانہ تعلقات کو بہت اہمیت دیتی تھی تاہم سعودی عرب کی موجودہ قیادت نوجوانوں پر مشتمل ہونے کے علاوہ جذباتی بھی ہے جو امریکہ و یورپ سےتعلیم یافتہ ہیں اور ان کی سوچ اپنے آبائو اجداد سے مطابقت نہیں رکھتی جبکہ اُن میں قوت برداشت بھی اپنے آبائو اجداد کی طرح نہیں۔
یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل سعودی عرب نے کینیڈین وزیر خارجہ کے متنازع بیان کے بعد کینیڈا کے سفیر کو ملک چھوڑنے کا حکم دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ تمام سفارتی و تجارتی تعلقات منقطع کرلئے تھے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آنے والے وقت میں سعودی عرب سے تعلقات میں احتیاط برتی جائے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمیاں دوبارہ جنم نہ لے سکیں۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدبرانہ کاوشوں اور پاکستان کی میچورڈ سفارتکاری کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمیوں کا خاتمہ ہوا اور پاک سعودی تعلقات آنے والے دنوں میں مزید مستحکم ہورہے ہیں اور درست سمت کی جانب گامزن ہیں جس پر پاکستان میں سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی یقیناً خراج تحسین اور اعلیٰ سول ایوارڈ کے مستحق ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ سعودی عرب میں 20لاکھ سے زائد پاکستانی مقیم ہیں جو سالانہ 5ارب ڈالر سے زائد ترسیلاتِ زر اپنے وطن بھیج کر پاکستان کی ترقی و خوشحالی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت سعودی عرب میں کام کرنے والے 4لاکھ سے زائد پاکستانی اپنے وطن میں پھنسے ہوئے ہیں اور واپس سعودی عرب جانے سے قاصر ہیں اور انہیں سفری پابندیوں اور کورونا ویکسی نیشن جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ امید ہے کہ پاکستان میں تعینات سعودی سفیر اس معاملے کو حل کرنے کیلئے ایک بار پھر اپنا کردار ادا کریں گے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔