10 ایتھلیٹس اور 12 آفیشلز پر مشتمل پاکستانی دستہ 29 برس سے اولمپک میڈل کے لیے ترستی پاکستانی قوم کی پیاس نہیں بجھا سکا
07 اگست ، 2021
23 جولائی سے 8 اگست تک ٹوکیو میں ہونے والے اولمپکس 2020 میں پاکستان کی کارکردگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ 10 ایتھلیٹس اور 12 آفیشلز پر مشتمل پاکستانی دستہ 29 برس سے اولمپک میڈل کے لیے ترستی پاکستانی قوم کی پیاس نہیں بجھا سکا، اس سوکھی ہوئی زمین سے اس بار بھی کوئی چشمہ نہ پھوٹا اور قوم کے ہاتھ مایوسی اور مزید 4 سال کے انتظار کے سوا کچھ نہ آیا۔
اگر مرزا غالب زندہ ہوتے تو اپنے مشہور شعر کا ایک مصرعہ تبدیل کرتے اور کہتے: ’میڈل جیتنا اولمپک کا لانا ہے جوئے شیر کا۔‘
آئیے ٹوکیو اولمپکس میں پاکستان کے سفر کا جائزہ لیتے ہیں اور جانتے ہیں کون سا کھلاڑی کب میدان میں اترا اور اس کا حشر کیا ہوا۔
پاکستان کے 10 ایتھلیٹس اولمپکس کیلئے گئے جن میں پہلی بار تین خواتین ایتھلیٹس بھی شامل تھیں۔ وہاں پاکستانی ایتھلیٹس 6 مختلف کھیلوں بیڈمنٹن ، ایتھلیٹکس، سوئمنگ، جوڈو، نیزہ بازی اور نشانہ بازی کے 9 ایونٹس میں شریک ہوئے لیکن تمغہ کوئی نہ جیت سکے۔
ٹوکیواولمپکس میں پاکستان کی جانب سے سب سے پہلے بیڈمنٹن پلیئر ماحور شہزاد 24 جولائی کو میدان میں اتریں لیکن جاپانی حریف نے انہیں بدترین شکست سے دو چار کیا۔ اس کے باوجود ان کے پاس فائنلز میں پہنچنے کا ایک موقع تھا لیکن 27 جولائی کو انگلش کھلاڑی نے انہیں ہرا کر ایونٹ سے باہر کر دیا۔
ٹوکیو اولمپکس میں سب سے پہلے باہر ہونے والے پاکستانی کھلاڑی شوٹر گلفام جوزف تھے جنہوں نے 24 جولائی کو 10 میٹر ائیر پسٹل ایونٹ میں شرکت کی۔ 36 شوٹرز میں سے 8 نے فائنل کے لیے کوالیفائی کرنا تھا، پاکستانی شوٹر نے 600 میں سے 578 شاٹس نشانے پر مارے، اتنے ہی پوائنٹس چین اور سربیا کے شوٹرز نے بھی حاصل کیے جس پر مقابلہ برابر ہو گیا تھا لیکن انتہائی معمولی فرق کی وجہ سے پاکستانی شوٹر فائنل راؤنڈ کے لیے کوالیفائی نہ کر سکے اور انہوں نے نویں پوزیشن پر اولمپکس کا اختتام کیا۔
ویٹ لفٹر طلحہ طالب 25 جولائی کو اکھاڑے میں اترے۔ طلحہ کوئی میڈل تو نہ جیت سکے لیکن انہوں نے حریفوں سے شاندار مقابلہ کیا اور پاکستانیوں کے دل جیت لیے۔ طلحہ نے اسنیچ میں 150 کلو اور کلین اینڈ جرک میں 170 کلو وزن اُٹھایا لیکن 2 کلو وزن کم اٹھانے پر وہ میڈل سے محروم رہے۔
طلحہ طالب کا اس ایونٹ میں پانچواں نمبررہا اور وہ بھی میڈل سے محروم رہے۔
27 جولائی کو 100میٹر فری اسٹائل سوئمنگ میں پاکستان کے حسیب طارق ایکشن میں تھے، حسیب طارق 53 اعشاریہ آٹھ ایک سیکنڈز کے ساتھ ہیٹ میں شریک 8 سوئمرز میں سے چھٹے نمبر پر رہے تاہم تمام ہیٹس کے اختتام پر حسیب طارق 70 تیراکوں میں سے 62 ویں نمبر پر رہے، یعنی میڈل سے کوسوں دور۔
29 جولائی کو جوڈو میں میڈل کی امید شاہ حسین شاہ کا مقابلہ عالمی رینکنگ میں 13 ویں نمبر پر موجود مصر کے رمضان درویش سے تھا، مصری جوڈوکا نے شاہ حسین شاہ کو چاروں خانے چت کرکے میڈل کی امید کو دفن کردیا۔
30 جولائی کو ویمنز سوئمنگ کی 50 میٹر فری اسٹائل کیٹیگری میں پاکستان کی بسمہ خان نےحصہ لیا جس میں وہ ناکام رہیں۔ ان کا وقت 27 اعشاریہ 78 آٹھ سیکنڈز رہا۔ اس ایونٹ میں 81 سوئمر نے شرکت کی جبکہ بسمہ خان کا نمبر 56 واں رہا، میڈل سے بہت دور۔
پاکستان کی نمائندگی کرنے والے نشانہ بازوں نے ٹورنامنٹ میں توقع سے بہتر کارکردگی دکھائی لیکن وہ تمغے کے لیے مقابلے کے مرحلے تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہے۔
قومی شوٹنگ چیمپئن غلام مصطفی بشیر نے یکم اگست کو پہلے مرحلے میں چھٹی پوزیشن حاصل کی جبکہ ان کے ساتھی خلیل اختر 16ویں نمبر پر رہے۔
تاہم 2 اگست کو کھیلے گئے دوسرے مرحلے کی کارکردگی کے بعد غلام مصطفیٰ بشیر 10 ویں نمبر پر رہے جبکہ تمغہ حاصل کرنے کے مقابلے کے لیے انھیں پہلی چھ پوزیشنز میں سے ایک حاصل کرنی تھی۔ مقابلوں میں خلیل اختر کی مجموعی پوزیشن 15ویں رہی۔
2 اگست کوایتھلیٹ نجمہ پروین نے خواتین کی 200 میٹر دوڑ میں حصہ لیا۔
نجمہ پروین ہیٹس میں سب سے آخری یعنی 7 ویں نمبر پر رہیں، نجمہ پروین نے 200 میٹر کا فاصلہ 28 اعشاریہ 12سیکنڈز میں طے کیا اور ذاتی بہترین ٹائم 23.69 سیکنڈز کو بھی بہتر بنانے میں ناکام رہیں۔
نجمہ دو اولمپکس کھیلنے والی پہلی پاکستانی خاتون ایتھلیٹ بنیں لیکن دونوں اولمپکس میں بغیر میڈل واپس آئیں۔
ٹوکیو اولمپکس میں جیولین تھرو (نیزہ بازی) کے گروپ میچز 4 اگست کی صبح ہوئے جس میں پاکستان کے ارشد ندیم گروپ بی میں شامل تھے۔
ایونٹ میں شریک 32 ایتھلیٹس کو فائنل تک رسائی کیلئے پہلے 83.5 کی تھرو درکار تھی، ارشد ندیم پہلی باری میں تو 78.5 کی تھرو کرسکے لیکن دوسری باری میں انہوں نے 85.16 کی تھرو کرکے فائنل کیلئے براہ راست کوالیفائی کیا۔
فائنل 7 اگست کو کھیلا گیا لیکن ارشد ندیم متاثر کن کارکردگی نہ دکھا سکے اور میڈل کی دوڑ سے باہر ہوگئے البتہ انہوں نے پانچویں پوزیشن حاصل کی۔
اس کے ساتھ ہی اولمپکس میں پاکستان کا سفر ’صفر‘ میڈل کے ساتھ تمام ہوا۔ ایک ایسا ملک جس کا وزیراعظم خود ایک کھلاڑی ہو وہاں کھیلوں کا یہ حال نہایت ہی مایوس کن ہے البتہ وزیراعظم حالیہ انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ کھیلوں سے زیادہ کچھ اہم مسائل ہیں اور اس وقت ان کی توجہ اس جانب ہے۔
بہرحال 29 سال سے یہ زمین خشک پڑی ہے، چار برس بعد کیا یہاں سے کوئی چشمہ پھوٹے گا یا زمین مزید بنجر ہوجائے گی، اس کا جواب حاصل کرنے کے لیے انتظار کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔