08 اگست ، 2021
کراچی میں مقیم افغان مہاجرین آج بھی اپنے ملک میں امن کے خواہاں ہیں۔
افغان مہاجرین کا کہنا ہے کہ ہم جیسے بھی تھے خوش تھے لیکن پہلے سوویت یونین بربادی کا سامان بنا اور پھر امریکا، زندہ رہنے کا ہر راستہ بند ہوگیا تھا، اس لیے ہم اپنے اپنے حصے کا افغانستان اُٹھا کر پاکستان لے آئے۔
یہ کہانی ہے 40 سال سے کراچی میں آباد افغان مہاجرین کی جس میں افغان معاشرے کی بھرپور جھلک کے علاوہ پناہ گزینی کی مشکلات اور وطن سے دوری کا دکھ بھی شامل ہے۔
چار دہائیوں سے کراچی میں آباد زیادہ تر افغان مہاجرین کو اب یہ اپنا ہی دیس لگتا ہے، ان میں اکثر ایسے بھی ہیں جو یہیں پیدا ہوئے، تعلیم حاصل کی اور گھر بسالیے، یہ ہے کراچی کا علاقہ الآصف اسکوائر جہاں افغان مہاجرین کی بڑی تعداد آباد ہے۔
ذکراللہ جمال الدین افغانی اسکول کے پرنسپل ہیں جو افغان حکومت کی سرپرستی سے اسکول چلارہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اسکول 21 سال سے قائم ہے اور یہاں ساڑھے 300 سے زائد طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ افغانستاں میں لوگوں کو اپنے مسئلوں کا حل خود ہی نکالنا ہو گا۔
ذکر اللہ جمال الدین کے مطابق اس علاقے میں ہر وقت ایک گہما گہمی رہتی ہے، شام میں معمر حضرات کرسیاں ڈال کر بیٹھ جاتے ہیں اور گفتگو محلے سے ہوتے ہوئے افغانستان میں بدامنی تک چلی جاتی ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق کراچی تقریباً ڈیڑھ لاکھ افغان مہاجرین کی پناہ گاہ ہے لیکن یہ افغان محنت مزدوری اور مختلف کاروبار کرکے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔
میزبان ریاست پاکستان سے پیار اپنی جگہ لیکن یہ اپنے دیس جانے کے لیے آج بھی بے قرار ہیں، یہ سب تب ہی ممکن ہے جب افغانستان میں امن ہو، پاکستان میں تیسری نسل کو پروان چڑھاتے ان مہاجرین کو اپنا انتظار مستقبل قریب میں ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔