آزادیٔ موہوم

وقت کا ظلم اس بے نیازی سے دلوں پر پاؤں دھرتا آگے بڑھتا ہے کہ دھوپ ڈھلنے کی خبر نہیں ہوتی۔ فرد آخر سرراہ کھڑے پیڑ پر ایک پتہ ہی تو ہے، ایک طرف شاہراہ پر دھول اڑاتا پرشور ہجوم اور دوسری طرف فنا کی گہری ندی کا سکوت۔ برگ سبز کو زرد پتے میں بدلتے دیر ہی کتنی لگتی ہے۔  مگر یہ کہ شاہراہ اور ندی کے بیچ ایستادہ تاریخ کا پیڑ ہر سعی پر نظر رکھتا ہے، ہر تغافل کی خبر رکھتا ہے۔

74 برس پہلے آزادی کا جو اعلان ہوا تھا، اسے طاق سے اٹھا کر اوراق گزشتہ کی بازیافت اور آج کی تقویم میں ضمنی لکھنے کا دن پھر آیا۔ امرتسر سے آنے والی لاریاں لاہور کی مال روڈ پر پاکستان ٹائمز کے دفتر سے کچھ فاصلے پر آ کر رکتی تھیں۔ انور علی فساد زدہ لدھیانہ میں تھے۔ فیض صاحب تشویش میں بار بار آنے والی لاریوں کے پاس جا کھڑے ہوتے تھے۔ بالآخر انور علی وحشت کے مناظر کا ایک پراگہ اٹھائے لوٹ آئے۔ فیض صاحب نے اپنے میز پر رکھی کچھ تصویریں دیکھیں، سب نہیں دیکھ پائے اور اس نظم کا نزول شروع ہو گیا، یہ داغ داغ اجالا۔ اس نظم پر سرکاری ہرکاروں نے بہت لے دے کی اور اسے آزادی کی توہین قرار دیا۔ 

الطاف گوہر نے تو ایک تحریر میں باقاعدہ ’صبح آزادی‘ کو وطن دشمنی قرار دیا۔ ٹھیک 34 برس بعد 1981ء میں فیض صاحب کی کلیات ’سارے سخن ہمارے‘ کی تقریب اردو مرکز لندن میں منعقد ہوئی تو الطاف گوہر کرسی صدارت پر رونق افروز تھے اور انہوں نے چندرا کے اسی نظم کی تحسین میں زور بیان صرف کیا۔ سرکاری اہل کار کی آنکھ اور شہری کی بصیرت میں بس یہی چند دہائیوں کا فرق ہوتا ہے۔ 

اگر آپ کو گراں نہ گزرے تو میں یہاں بھٹو صاحب کو یاد کر لوں۔ بھٹو صاحب نے 1969 میںThe Myth of Independence (آزادی موہوم) لکھی لیکن اس کے بنیادی نکات کو شہید بھٹو نے 1978 میں زنداں سے لکھی کتاب If I am assassinated میں کہیں زیادہ صراحت سے بیان کیا۔ ملک کے داخلی استبداد اور بیرونی چیرہ دستیوں میں تعلق بیان کرتے ہوئے صفحہ 178 پر بہت پتے کی بات کہی۔

The people... have to guard against the internal enemy, if foreign domination or hegemony is to be resisted. Coup-gemony is the bridge over which hegemony walks to stalk our lands.

(اگر عوام بیرونی بالادستی کی مزاحمت کرنا چاہتے ہیں تو انہیں داخلی جمہور دشمنوں پر آنکھ رکھنی چاہئے۔ ملک میں آمریت ہی وہ پل ہے جس پر چل کر بیرونی مداخلت ہماری دھرتی تک پہنچتی ہے۔) نواز شریف کو اس نتیجے تک پہنچنے میں چالیس برس لگے۔ موجودہ نسل بھی بنجر نہیں۔ آج کے بہت سے بلند آہنگ لہجے تاریخ کی دھوپ چھائوں سے گزریں گے تو اپنی موجودہ رائے پر نظر ثانی کر سکیں گے۔ 

مشکل یہ ہے کہ تاریخ فرد کا انتظار نہیں کرتی۔ آزادی کا امکان سمجھنے کے لئے غلامی کی تفہیم بہت ضروری ہے۔ نوآبادیاتی قابض سرکار دراصل طاقت کے بل پر ہمارے کھیتوں میں اپنے جانور چھوڑنے کا اختیار حاصل کر لیتی ہے۔ ہم اپنی فصل کے جائز حصے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ جہاں سے چاہتی ہے، پانی توڑ لیتی ہے، ہمارے کھیت سوکھے رہ جاتے ہیں۔ اپنی جنگیں لڑنے کے لئے ہمارے بچوں کو یرغمال بنا کے لے جاتی ہے۔ مختلف ہتھکنڈوں سے ہمارے معاشی وسائل پر اجارہ قائم کرتی ہے۔ 

ہر قوم کو اپنے وسائل، اپنی محنت اور اپنی اہلیت سے پورا فائدہ اٹھا کر اپنی زندگیاں بہتر بنانے کا حق ہے۔ یہی حق خود حکمرانی ہے۔ گوکھلے سے قائد اعظم اور گاندھی جی سے پنڈت نہرو تک، آزادی کی لڑائی اس لئے لڑی گئی کہ ہمیں اپنی قسمت کے فیصلے کرنے کی آزادی ہو گی۔ ہم اپنے وسائل کی تقسیم میں آزاد ہوں گے۔ ہم اپنے محصولات کے استعمال کی ترجیحات باہم مکالمے کی مدد سے طے کریں گے۔ ہم اپنے حکمران اپنے ووٹ سے چنیں گے۔ ہم جنگ اور امن کے فیصلے کرنے میں آزاد ہوں گے۔ ہم کسی فتنہ پرور کے بہکاوے میں آ کر ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کی بجائے باہم مساوات اور احترام کے رشتے قائم کر سکیں گے۔ یوم آزادی موقع فراہم کرتا ہے کہ اپنے سفر اور اپنی موجودہ صورت حال پر ایک نظر ڈال کر فیصلہ کریں کہ کیا ہمیں آزادی کے ثمرات مل سکے؟

اس کے دو جواب ممکن ہیں۔ ایک تو شخصی ردعمل ہے۔ کسی اعلیٰ منصب دار یا کامیاب کاروباری شخص سے دریافت کیجئے تو وہ آپ کو بتائے گا کہ اس کا باپ ایک معمولی فرد تھا تاہم اس نے اپنی محنت شاقہ، اللہ کے فضل اور اپنے والدین کی دعائوں سے موجودہ مقام حاصل کیا نیز یہ کہ اس کی موجودہ ترقی قومی آزادی کی مرہون منت ہے۔ سر پر بوجھ ڈھوتے کسی غریب آدمی یا بچوں کی دوا کے لئے دھوپ میں کھڑی بے رونق آنکھوں والی ماں سے یہی سوال کیجئے تو ایک دوسری کہانی سننے کو ملے گی۔

ایک دوسرا اور کسی قدر معروضی طریقہ یہ ہے کہ کچھ قابل تصدیق سوالات مرتب کر لئے جائیں۔ 74 برس پہلے جب ہمیں آزادی ملی تو ہمارے معاشی اور تمدنی زاویے کیا تھے اور اس وقت دنیا میں ہم تقابلی سطح پر کہاں کھڑے تھے۔ اس دوران دنیا میں معیشت، علم اور معیار زندگی میں بہتری کی رفتار کیا رہی؟ کیا ہم اپنے اردگرد اور دنیا بھر میں تبدیلیوں کی رفتار کا ساتھ دے پائے؟ سیاسی استحکام، معاشی حجم، شرح نمو، پیداواری اشاریوں، تعلیمی معیار، تحقیق و ایجاد، صحت کے اعداد و شمار، شہری سہولتوں اور سماجی ہم آہنگی میں ہماری موجودہ صورت حال کیا ہے؟ ان سوالات کے بھی دو جواب ممکن ہیں۔ 

آپ مجھے ہر شعبہ زندگی میں بہترین افراد کی ایک فہرست گنوا دیں گے۔ مجھے یہ کہتے ہوئے شرم دامن گیر ہو گی کہ قوم کا معیار انفرادی کارکردگی سے نہیں بلکہ مجموعی قومی کارکردگی سے طے پاتا ہے۔ چنانچہ میں آپ سے اختلاف کیے بغیر صرف یہ پوچھوں گا کہ کیا آپ کو واقعی یقین ہے کہ آئندہ انتخابات 2023 میں ہوں گے اور شفاف ہوں گے؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔