پلاسٹک اور شاپنگ بیگز کے انسانی صحت، زراعت اور جنگلی حیات پر مضر اثرات

کم و بیش 2 لاکھ افراد روزانہ گھریلو ضروریات کیلئے پولی تِھین بیگ استعمال کرتے ہیں۔ فوٹو: جیو نیوز
کم و بیش 2 لاکھ افراد روزانہ گھریلو ضروریات کیلئے پولی تِھین بیگ استعمال کرتے ہیں۔ فوٹو: جیو نیوز 

جدید دور میں ترقی کے ساتھ جہاں انسانی زندگی میں آسانیاں پیدا ہوئیں وہیں کئی مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں، اس کی ایک مثال پولی تِھین کے بنے شاپنگ بیگ کا استعمال ہے۔  ان بیگ سے ماحولیاتی مسائل کےعلاوہ انسانی صحت، زراعت اور  جنگلی حیات پر بھی مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں پابندی کے باوجود پلاسٹک اور  پولی تِھین کی تھیلیوں کا استعمال حکومت کے لیے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔

اسے سہل پسندی کہا جائے، ماحولیاتی مسائل سے متعلق عدم آگہی، غفلت یا لاپرواہی۔ پولی تِھین کے شاپنگ بیگز کھانے پینے، سودا سلف، کپڑے اور  روزمرہ استعمال کی اشیاء لانے اور لے جانے کے لیے انسانی زندگی کا لازمی جزو اور ضرورت بن چکے ہیں۔

کم و بیش 2 لاکھ افراد روزانہ گھریلو ضروریات کیلئے پولی تِھین بیگ استعمال کرتے ہیں۔ فوٹو: جیو نیوز
کم و بیش 2 لاکھ افراد روزانہ گھریلو ضروریات کیلئے پولی تِھین بیگ استعمال کرتے ہیں۔ فوٹو: جیو نیوز

ایک اندازے کے مطابق کوئٹہ میں روزانہ 30 لاکھ سے زائد آبادی میں سے کم و بیش ایک سے 2 لاکھ افراد روزانہ گھریلو ضروریات کے لیے پلاسٹک یا پولی تِھین بیگ استعمال کرتے ہیں۔ اب اتنی بڑی آبادی کو ان کے استعمال سے کیسے روکا جائے اور  پہلے سے ماحول میں موجود ان بیگز کو کیسے تلف کیا جائے؟ یہ اہم سوال ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ کئی دہائیوں سے بلوچستان میں پلاسٹک اور پولی تِھین کے شاپنگ بیگز کی خرید و فروخت، استعمال اور تیاری پرحکومت کی جانب سے پابندی عائد ہے بلکہ ایسا کرنا بلوچستان انوائرنمنٹ پروٹیکشن ایکٹ 2020 کے تحت جرم بھی ہے۔

اپریل 2017 میں بلوچستان اسمبلی نے اس سے متعلق قرارداد بھی منظورکی، عدالت عالیہ بھی اس حوالے سے احکامات دے چکی ہے لیکن نہ تو صوبائی حکومت اور نہ ہی ضلعی انتظامیہ اس پابندی پر عملدرآمد کروا سکی ہے۔

اس حوالے سے جب سیکرٹری محکمہ ماحولیات عبدالصبور کاکڑ سے ان کا مؤقف جاننے کے لیے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک پولی تِھین کے بیگز کا تعلق ہے تو اس کی خرید و فروخت، تیاری اور  استعمال پر مکمل پابندی عائد ہے۔

فی الحال ہم نے کوئٹہ کو ہدف بنایا ہے کہ کم از کم اسے اس شہر سے ختم کریں،سیکرٹری ماحولیات فوٹو: جیو نیوز
فی الحال ہم نے کوئٹہ کو ہدف بنایا ہے کہ کم از کم اسے اس شہر سے ختم کریں،سیکرٹری ماحولیات فوٹو: جیو نیوز

ان کا مزید کہنا تھا کہ جو بھی ایسا کرتا ہے تو وہ ماحولیاتی قوانین کے تحت جرم کا مرتکب ہوتا ہے۔ کوئٹہ میں بہت ساری جگہیں ہیں جہاں یہ اسٹور ہوتا اور  پھر وہاں سے بلوچستان کے دوسرے اضلاع کو سپلائی کیا جاتا ہے۔

فی الحال ہم نے کوئٹہ کو ہدف بنایا ہے کہ کم از کم اسے اس شہر سے ختم کریں اور جو پلاسٹک یا پولی تھین ماحول میں جا چکا ہے، اسے مختلف مہم کے ذریعے جمع کیا جا رہا ہے اور  ہم اسے محفوظ طریقے سے تلف کرنے کا نظام بھی لائے ہیں۔

عبدالصبور کاکڑ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ماحول دوست شاپنگ بیگز بھی متعارف کرائے جارہے ہیں، اس حوالے سے لوگوں میں شعور و آگہی بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یکم فروری 2021 کوصوبائی حکومت نے پلاسٹک بیگ کے متبادل ماحول دوست تحلیل ہونے والے بیگ متعارف کروانے کی منظوری تو دی مگراس پر بھی عملدرآمد نہیں ہو سکا۔

 کوئٹہ میں یومیہ تقریبا 6000 کلوگرام پلاسٹک بیگ فروخت ہوتے ہیں

دوسری جانب کوئٹہ میں پابندی کے باوجود 80 سے زائد ہول سیل اور ریٹیل کی دکانوں پر یومیہ اوسطاً تقریبا 6000 کلوگرام پلاسٹک اور پولی تِھین کے بیگ فروخت ہوتے ہیں۔ ان میں سے پنجاب کےعلاوہ ایران سے اسمگل ہوکر بھی یہ بیگ کوئٹہ پہنچتے ہیں۔

تاہم پابندی پرعمل نہ ہونے کا نتیجہ یہ ہے کہ پولی تِھین کے بیگ کی شہر کے مختلف علاقوں میں کھلے عام خرید و فروخت اور ان کا بے دریغ استعمال جاری ہے جس کی وجہ سے نہ صرف ماحول کی جمالیاتی خوبصورتی متاثر ہو رہی ہے بلکہ یہ نکاسِ آب اور صفائی کے نظام کی خراب صورتحال کی بڑی وجہ بھی ہیں۔

اس بارے میں کوئٹہ میٹروپولیٹن کارپوریشن کے سینیٹری انسپکٹر نتھانیل اختر نے جیو نیوز سے بات چیت میں شہریوں کی جانب سے پلاسٹک اور پولی تھین کے بیگز کے بے دریغ استعمال کے حوالے سے شکووں کے پل باندھ دیئے۔

ان کا کہنا تھا کہ شہر میں جہاں کہیں بھی نالیاں اور گٹر وغیرہ بند ہوتے ہیں یہ سب ان شاپبگ بیگز کی وجہ سے ہوتا ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ ان شاپروں کا استعمال سب سے بڑا مسئلہ ہے، لوگ شاپرز کچرا بھر کے نالیوں میں ڈال دیتے ہیں یا پھر سڑک کنارے رکھ دیتے ہیں۔

اس حوالے سے چیئرپرسن شعبہ انوائرنمنٹل سائنسز سردار  بہادرخان ویمن یونیورسٹی کوئٹہ پروفیسر ڈاکٹر رابعہ ظفر کا کہنا تھا کہ شاپنگ بیگز پیٹروکیمیل کا بائی پراڈکٹ یعنی اس کی ضمنی پیداوار ہے، جس طرح سے دیگر پیٹرو کیمیل کی تحلیل مشکل ہے، اسی طرح سے پلاسٹک بیگز کی بھی بہت مشکل ہے۔

 پلاسٹک بیگز کو تحلیل ہونےکیلیے100 سال تک درکارہوتے ہیں

ان کا کہنا تھا کہ ایک اندازے کے مطابق پلاسٹک بیگز کو ماحول میں تحلیل ہونے کے لئے  100 سال تک درکارہوتے ہیں بلکہ  100 سال تک یہ بیگز ایکو سسٹم میں موجود رہتے ہیں اور اگو کوئی چیز زیادہ دیر تک ماحول میں رہے گی تو پھر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے انسانی صحت و دیگر جانداروں اور حیاتیات پر  کیا اثرات ہوں گے اورپھر یہ ایکو سسٹم کو بھی تباہ کرتا ہے۔

اس کا سب سے بڑا اثر مائیکر و پلاسٹک کا ہے، پانچ ملی میٹر سے کم لینتھ کے چھوٹے چھوٹے مائیکر و ذرات ہوتے ہیں جو ہر جگہ زمین اور  مٹی میں موجود ہوتے ہیں، یہ ہوا اور پانی میں بھی موجود ہوتے ہیں، انہیں انہیل کیا جا سکتا ہے، زمین پر کوئی جانور یا پرندے اور کیڑے وغیرہ اور پانی میں کوئی مچھلی اور  دیگر  آبی جانور اسے کھائیں گے تو اس سے ان پر منفی اثرات ہوں گے۔

ہوا میں موجود یہ مائیکرو پلاسٹک سانس لینے سے انسانی جسم میں چلے جاتے ہیں مگر یہ ہضم نہیں ہو سکتے اور لامحالہ یہ انسانی جسم میں جمع ہو جاتے ہیں جو کہ کینسر اور دل اور خون کی شریانوں سمیت مختلف امراض کی وجہ بن سکتے ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر رابعہ ظفر کا کہنا تھا کہ پلاسٹک بیگز کا استعمال اس لیے کیا جاتا ہے کہ یہ بہت آسانی سے دستیاب ہوتے ہیں اور وزن میں بھی ہلکے اور قیمت کے اعتبار سے بہت سستے ہوتے ہیں اور  یہ ایک طرح سے انسانی ضرورت بن گئے ہیں، ان کے بغیر اب رہا نہیں جا سکتا مگر جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ ان کا بے دریغ استعمال بہت نقصان دہ ہے، زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ اب پولی تھین اور پلاسٹک کی مختلف اقسام دوردراز سیاحتی مقامات پر بھی دیکھی جا سکتی ہیں جس سے وہاں کا ماحول اور خوبصورتی بھی متاثر ہو رہی ہے۔

پولی تھین اور پلاسٹک کے بیگز اور دیگر اشیاء کا استعمال کم سے کم کیا جائے،ڈاکٹر رابعہ،فوٹو: جیو نیوز
پولی تھین اور پلاسٹک کے بیگز اور دیگر اشیاء کا استعمال کم سے کم کیا جائے،ڈاکٹر رابعہ،فوٹو: جیو نیوز

سیاح جب ان سیاحتی مقامات پر سیر و تفریح کے لیے جاتے ہیں تو وہ پلاسٹک کے تھیلے اور دیگر اشیاء وہاں ہی چھوڑ آتے ہیں جو کہ اچھا اور صحتمند رجحان نہیں ہے۔

ڈاکٹر رابعہ ظفر نے تجویز دی کہ ایک تو پولی تھین اور پلاسٹک کے بیگز اور دیگر اشیاء کا استعمال کم سے کم کیا جائے اور دوسرا ماحول دوست بیگز بلکہ کپڑے کے تھیلوں کےاستعمال کو فروغ دیا جائے اور تیسرا پلاسٹک بیگز اور اس سے بنی دیگر چیزوں کو دوبارہ سے قابل استعمال بنایا اور  ری سائیکل کیا جائے۔

اسی سے متعلق ویمن یونیورسٹی کے انوائرنمنٹل کلب کی رکن اور شعبہ کیمسٹری کی اسسٹنٹ پروفیسر نیلوفرجمیل کا کہنا تھا کہ یہ پلاسٹک اور پولی تھین بیگز ماحول کی خوبصورتی کو بے حد متاثر کرتے ہیں۔

ان کی وجہ سے آبی حیات بھی متاثر ہو رہی ہے، پروفیسر نیلوفرجمیل، فوٹو: جیو نیوز
ان کی وجہ سے آبی حیات بھی متاثر ہو رہی ہے، پروفیسر نیلوفرجمیل، فوٹو: جیو نیوز

یہ تھیلیاں ایک عرصے تک ماحول میں رہتی ہیں اور پھر کھلی جگہوں پر دھوپ میں پڑے یہ شاپرز ماحول اور فضاء میں خاص قسم کا مضر مادہ چھوڑتے ہیں جو  بظاہر تو محسوس نہیں ہوتا مگر  بہرحال ان کے انسانی صحت اور  ماحول پر انتہائی منفی اثرات ہوتے ہیں، اس کے علاوہ جب انہیں سمندر برد کیا جاتا ہے تو مچھلیاں اور  دیگر آبی جانور مس گائیڈ ہوکر انہیں خوراک سمجھ کر کھالیتے ہیں اور  مربھی جاتے ہیں اس طرح ان کی وجہ سے آبی حیات بھی متاثر ہو رہی ہے۔

زراعت پر منفی اثرات

ماہرین نے اس بات پر خصوصی طور پر زور دیا کہ شہریوں کو پلاسٹک کے تھیلے کا استعمال نہ کرنے یا کم سے کم استعمال کرنے کے بارے میں آگاہ کیا جائے بلکہ انہیں قدرتی ریشوں اور کاغذ سے بنے ماحول دوست متبادل بیگ استعمال کرنے کی طرف راغب کیا جائے، ایسا کرنا نہ صرف آج بلکہ آئندہ زمین پر انسانی اور  دیگر جانداروں کی زندگی اور ماحول کی بقاء کے لیے ناگزیر ہے۔

مزید خبریں :