18 اگست ، 2021
افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی نے متحدہ عرب امارات سے فیس بک کے ذریعے قوم سے خطاب میں کہا ہے کہ طالبان ہر کمرے میں مجھے ڈھونڈ رہے تھے، مجبوری میں افغانستان چھوڑا ہے۔
متحدہ عرب امارات نے آج اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اشرف غنی اور ان کے اہل خانہ امارات میں ہیں اور انہیں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ملک میں پناہ دی گئی ہے۔
اب فیس بک پر اشرف غنی نے قوم سے خطاب کیا ہے۔ اشرف غنی کے آفیشل فیس بک پیج پر جاری ویڈیو میں انہوں نے کہا کہ دشمن کابل آکر مجھے ایک سے دوسرے کمرے میں تلاش کررہے تھے، مجبوری میں افغانستان سے گیا ہوں۔
اشرف غنی نے مزید کہا کہ ہم سے پہلے بھی بہت سے لیڈر افغانستان سےگئے، پھر واپس آئے، چاہتاتھا کابل میں خونریزی نہ ہو، میری زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ کتاب ہے۔
انہوں نے کہا کہ پر امید ہوں نا امیدی و مایوسی کی یہ راتیں جلد ختم ہوجائیں گی، افغانستان ایک بار پھر آزاد اور ترقی کی جانب گامزن ہوگا۔
اشرف غنی کا کہنا تھاکہ میں پرامن طریقے سے طالبان کو اقتدار منتقل کرنا چاہتا تھا لیکن مجھے میری مرضی کے خلاف افغانستان سے نکالا گیا۔
ملک سے فرار کے معاملے پر سابق صدر کا کہنا تھاکہ طالبان کےساتھ حکومت سازی سے متعلق کام میں مصروف تھا کہ دوپہرکو اچانک میرےسکیورٹی اہلکار آئے اور مجھے وہاں سے نکالا، مجھے مجبوراً افغانستان سے نکالاگیا تاکہ خونریزی نہ ہوجائے۔
ان کا کہنا تھاکہ میں اپنی عوام کے ساتھ ہوں، خون بہانہ نہیں چاہتا اور سب کو معلوم ہے میں عزت کے ساتھ مرنے سے نہیں ڈرتا۔
ان کا کہنا تھاکہ طالبان نے کابل میں داخلے کے حوالے سے معاہدے کی پاسداری نہیں کی، میں موت سے نہیں ڈرتا لیکن میں پھانسی پر نہیں چڑھنا چاہتاتھا کیونکہ میں افغانستان کے صدر کی حیثیت سے ملک کی عزت ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ افغان عوام پرامید ہوں، ناامیدی کے دن جلد ختم ہوجائیں گے، افغانستان پھرآزادی اور ترقی کی راہ چل پڑےگا، پرامن افغانستان میرا بنیادی ہدف ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جو مجھ پر افغانستان بیچ کر بھاگنے کا الزام لگاتے ہیں ان کی معلومات درست نہیں، ملا عمر بھی قندھار سے نکلے تھے، امیر عبدالرحمان و دیگر بھی نکلے تھے۔
اشرف غنی نے کہا کہ مجھ پر ملک سے پیسے لے جانےسمیت دیگر بے بنیاد الزامات لگائےگئے، افغانستان سے نقد رقوم کے الزامات جھوٹ اور بےبنیاد ہیں، میزبان ملک سے پوچھ سکتے ہیں میں یہاں خالی ہاتھ آیا ہوں۔
اشرف غنی نے کہا کہ حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ کے مذاکرات کی حمایت کرتا ہوں، افغان فورسز نے شکست نہیں کھائی، ہمیں سیاست میں شکست ہوئی، جوکچھ ہوا یہ طالبان اور افغان حکومت کی سیاسی ناکامی تھی۔
خیال رہے کہ آج کابل میں طالبان رہنماؤں کی عبداللہ عبداللہ، سابق افغان صدر حامد کرزئی، سیاسی رہنما گلبدین حکمت یار اور دیگر حکام کے درمیان ملاقات ہوئی ہے جو طالبان کو اقتدار کی منتقلی کی جانب ایک قدم ہے۔
ملا عبدالغنی برادر بھی جلد کابل پہنچیں گے اور حکومت سازی کے حوالے سے اس کے بعد مزید پیش رفت ہوگی۔