افغانستان، طالبان اور دو راہائے عمل

میرے بلوچ قوم پرست دوست سینیٹر منظور گچکی نے طنزاً طالبان کی ’’فتح مبین‘‘ کو پنجابیوں کی کامیابی قرار دے کر مبارکباد دی بھی تو اس روز جس دن تحریک لبیک پاکستان کے ایک رکن نے لاہور میں نصب مہاراجہ رنجیت سنگھ کے مجسمے کو پاش پاش کردیا۔ 

یہ وہی پنجابی مہاراجہ تھا جس نے احمد شاہ درانی اور اس کے تابئین کی فوجوں کو دوبارہ شمال مغرب کی جانب دھکیل کر پہلی پنجابی ریاست قائم کی تھی۔ اس قوم پرستانہ طعنے کا سبب غالباً افغان طالبان کو قبائلی علاقوں سے فراہم کی گئی وہ کمک ہے جس نے 20 برس تک انہیں پناہ گاہیں فراہم کیں۔

 عجب تاریخی اتفاق ہے کہ طالبان کی تحریک نے قندھار میں جنم لیا تھا اور احمد شاہ درانی بھی اصل میں قندھار ہی کا بادشاہ تھا جس نے 1762 میں افغان ریاست قائم کی تھی۔ اس سے قبل افغانستان بیرونی حملہ آوروں کی آماجگاہ اور گزرگاہ رہا جس میں سکندر اعظم ، اشوکا کی موریا ایمپائر، یوریشیا، ساسانی اور گپتا سلطنتیں، غزنوی اور غوری بادشاہتیں، مغل اور سفوی ایمپائرز اور احمد شاہ درانی کی سلطنت، پھر روسیوں اور برطانیہ فوجی مہمیں۔ 

امیر عبدالرحمٰن نے اسے 1900 میں یاغستان (آزاد لوگوں کی سرزمین) کا نام دیا اور کہیں جاکر 1919 میں افغانستان ایک آزاد ریاست بن پایا جسے افغان اپنی قومی آزادی کے دن کے طور پر مناتے ہیں اور جس کی یاد میں طالبان کے جھنڈے کی مخالفت میں افغان قوم پرستوں نے کئی شہروں میں اپنا قومی جھنڈا لہرایا ۔ یہ روشن خیال امیر امان اﷲ تھے جنہوں نے جدید افغانستان کی بنیاد ڈالی اور ایک آئینی بادشاہت کا باقاعدہ قیام 1964 کے آئین کی صورت سامنے آیا ۔ 

بعدازاں سردار داؤد نے حکومت کا تختہ اُلٹ دیا اور کمیونسٹ خلق پارٹی نے اپنی حکومت قائم کی اور پھر ان کی جگہ پرچمی دھڑے نے لی جس کی پشت پناہی کے لیے سوویت فوجیں دس برس تک افغانستان میں براجمان رہیں اور ایک سوشلسٹ ریاست کی تعمیر کا کام بندوق کے زور پہ کرنے میں ناکامی اور روسی فوجوں کی واپسی کے باوجود صدر کامریڈ نجیب اﷲ تین برس تک حکمران رہے۔

 پھر جنیوا معاہدے کے بعد باہم برسرپیکار افغان مجاہدین کی شکست کے باعث طالبان بغیر کسی بڑی مزاحمت کے کابل پہ قابض ہوگئے۔ لیکن 9/11 کے بعد 7 اکتوبر 2001کو امریکہ اور بعدازاں اس کے نیٹو اتحادیوں نے ’’آپریشن اینڈ یورنگ فریڈم‘‘ شروع کیا جو 2014کو ختم ہونے کے باوجود 15 اگست 2021کو اختتام پہ پہنچا اور پھر سے 9 دنوں میں طالبان سارے افغانستان پہ قابض ہوگئے۔ 

امریکی 2430 اپنے اور 66 ہزار افغان فوجی مرواکر، ہزاروں دیہات تاراج اور لاکھوں افغانوں کو مار کر روانہ ہوئے۔ دریں اثنا وہائٹ مین برڈن کی روایت پر قومی ریاست کی تعمیر کا کام کیا گیا۔ افغان شہروں کی کایا پلٹ ہوگئی اور ایک نہایت پڑھی لکھی مڈل کلاس اور تقریباً دس لاکھ نفوس پہ مشتمل ریاست اور سول سوسائٹی وجود میں آگئی۔ 

لیکن امریکی عسکریت پسند ایمپائر تاریخ کی سب سے بڑی اور مہلک جنگ کی حکمت عملی کے سبب مستحکم جدید قومی ریاست بنا پائی نہ افغانوں کی طالبان کے زیر قیادت مزاحمت کو مکمل طور پر ختم کرسکی۔ پہلی بار1996-2001 طالبان کو جو افغانستان ملاافغان مجاہدین کے ہاتھوں کھنڈر بن چکا تھا۔ اب کی بار انہیں ایک بہت ہی مختلف شہری افغانستان ملا ہے جس کے سرکاری و غیر سرکاری ملازمین اور اہلکاروں کی تعداد لاکھوں میں ہے اور جو عالمی سرمایہ دارانہ نظام سے جڑا ہوا ہے۔

طالبان کی واپسی کی بنیاد فروری 2020میں ہونے والے امریکہ اور اسلامی امارات کے مابین معاہدے سے ہوگئی تھی اور امریکی قبضہ کا مکمل خاتمہ 5 جولائی کو بگرام کے فوجی اڈے سے امریکی فوجوں کے اچانک انخلا سے ہوگیا تھا۔ اور اس کے ساتھ ہی کرائے کی افغان فوج اور کلائنٹ اسٹیٹ دھڑام سے گرتی چلی گئی۔

 حامد کرزئی اور اشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومتیں فقط مال بنانے اور امریکیوں کو افغانستان میں باندھے رکھنے کی کوششوں میں مصروف رہیں۔ اپنے جواز کے لیے انہیں ملی بھی تو گماشتہ افغان قوم پرستی جس کا شرمناک انجام اشرف غنی کے بزدلانہ فرار کی صورت میں سامنے آیا جس سے ہمارے دوست پختون قوم پرستوں کو شدید ندامت اُٹھانا پڑی ہےلیکن اب پھر سے افغان طالبان کا دور آیا ہے تو ہمارے مذہبی حلقے خوب بڑھ چڑھ کر جہاد کی ایمان افروزی کے گن گارہے ہیں۔ 

ذرا دیکھتے ہیں کہ یہ افغان طالبان کن تاریخی اور مسلکی سوتوں سے پیدا ہوئے ہیں اور انہیں اب کیا چیلنجز درپیش ہیں اور افغانستان کیا راہ لے گا؟ افغانستان اور طالبان کے حوالے سے دو تاریخی سیاسی اور مذہبی دھاروں کا ذکر ضروری ہے۔ طالبان کی فکری بنیاد میں شاہ ولیا  اﷲ اور بعدازاں سید احمد آف رائے بریلی اور اسماعیل شہید کی فکر شامل ہے۔ گو کہ شاہ ولی اﷲ اجتہاد کے قائل تھے اور صوفی سلسلے اور فلاحی ریاست کے تصورات سے بھی متاثر تھے لیکن وہ ابن عبدالوہاب کی طرح ابن تیمیہ کے نظریات سے متاثر ہوکر کٹر وحدانیت پسند، سلفی، وہابی طرز کے مکتب کے نمائندہ بن گئے جو دیو بند مکتب کی بنیاد ٹھہرا۔ یہی دیو بند مکتب جمعیت علمائے ہند سے ہوتا ہوا تحریک طالبان افغانستان کی صورت میں سامنے آیا جو پاکستان کے دیو بندی مدرسوں کی پیداوار ہیں۔

بہت ہی دلچسپ اتفاق ہے کہ یہ شاہ ولی اﷲ ہی تھے جنہوں نے مغل بادشاہت کے زوال پر مرہٹوں اور جاٹوں کی بالادستی کے خاتمے کے لیے احمد شاہ ابدالی کو شمالی ہندوستان پر قابض ہونے کی دعوت دی اور بعدازاں وہ درانی کے ہاتھوں قتل عام اور عورتوں کے ساتھ جنسی جرائم جن میں مسلمان بھی شامل تھے، پربہت نالاں ہوگئے۔ اور بلہے شاہ نے بھی اس پر بڑے تبرے بھیجے۔

 علمائے دیو بند نے ہندوستان کی آزادی میں بے مثال قربانیاں دیں اور عبیداﷲ سندھی نے تو ہندوستان کا ایک سوشلسٹ جمہوری آئین بھی مرتب کیا تھا۔طالبان نے کابل پہ قبضے کے ساتھ ہی جمہوریت کو رد کرتے ہوئے شریعت کے نفاذ کا دعویٰ کردیا ہے۔ یہ وہی سوچ ہے جو تقریباً تمام مسالک خاص طور پر دیو بندی مکتب کا طرہ امتیاز ہے۔

ان کی اس فکر کو مذہبی اسکالر جاوید احمد غامدی نے بڑی فراست سے چیلنج کیا ہے، مولانا مودودی کی تفہیم القرآن سے استفاد کرتے ہوئے غامدی صاحب نے کہا ہے کہ وامر ھُم شوریٰ بینھم (الشوریٰ(۴۲:۸۳) کا مطلب عوام الناس کے مشورے یعنی منشا سے قائم حکومت ہے، نہ کہ قہر و تغلب سے قائم کی گئی حکومت جو کہ غیر شرعی ہے اور جسے شخصی معاملات میں مداخلت کا حق نہیں۔

اب طالبان اپنے امیر کی قیادت میں طالبان کی شوریٰ کی آمریت قائم کرتے ہیں یا ایک وسیع البنیاد عبوری حکومت کے ذریعے عوامی رائے دہندگی سے ایک منتخب حکومت کا راستہ اختیار کرتے ہیں؟ پہلی صورت میں افغان خانہ جنگی اور عالمی تنہائی اور دوسری صورت میں قومی ریاست، جمہوری حقوق اور عالمی حمایت حاصل ہو سکتی ہے!


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔