28 اگست ، 2021
جب حامد کرزئی افغانستان کے صدر تھے تو اس وقت ان کے بارے میں پاکستان اور افغانستان کے اندر بھی یہ پروپیگنڈا کیا جارہا تھا کہ جیسے ہی وہ صدارت سے فارغ ہوں گے تو امریکہ یا ہندوستان چلے جائیں گے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ صدارت سے فراغت کے بعد بھی وہ نہ صرف افغانستان میں رہے بلکہ سیاست اور سفارت دونوں میں حد درجہ فعال رہے۔
جب طالبان کابل میں داخل ہورہے تھے تو افغانستان کے صدر وہ نہیں بلکہ اشرف غنی تھے۔ حامد کرزئی نے نہیں بلکہ اشرف غنی نے سینہ تان کر کہا تھا کہ وہ آخری وقت تک لڑیں گے لیکن ہوا یہ کہ اشرف غنی اپنے قریبی ساتھیوں کو بھی چھوڑ کر بھاگ گئے لیکن حامد کرزئی اور ڈاکٹر عبداللّٰہ عبداللّٰہ وغیرہ ڈٹے رہے ۔ جب اشرف غنی بھاگ گئے تو حامد کرزئی نے اپنی چھوٹی بچیوں کے ساتھ وڈیو جاری کرکے اپنے ساتھیوں اور قوم کو تسلی دی کہ وہ کابل میں موجود ہیں اور رہیں گے۔
واضح رہے کہ اس وقت تک طالبان کی طرف سے عام معافی کا اعلان نہیں ہوا تھا اور یہ واضح نہیں تھا کہ طالبان کے کابل میں داخل ہونے کے بعد ان جیسے لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا ؟ سوال یہ ہے کہ ایک ہی ملک کے دو پختونوں کے ان مختلف رویوں کی وجہ کیا تھی اور اس میں ہم پاکستانیوں کے لئے کیا سبق ہے ؟ وجہ اس کی یہ ہے کہ اشرف غنی کی اولاد افغانستان میں نہیں تھی جبکہ حامد کرزئی کی اولاد افغانستان میں ہے ۔
دوسری وجہ یہ تھی کہ اشرف غنی زیادہ عرصہ بیرون ملک رہے تھے اور حکمرانی کے لئے افغانستان آئے تھے جبکہ حامد کرزئی دھرتی کے بیٹے تھے۔ وہ فرشتہ نہیں۔ ان کی حکومت بھی اچھی اور مثالی حکومت نہیں تھی۔ ان کی شخصیت میں بھی وہ بیشتر خامیاں موجود ہیں جو دیگر افغان رہنماؤں میں موجود ہیں لیکن انہوں نے ماضی میں بھی کئی بار اپنی جان کو خطرے میں ڈالا اور اب بھی ایسا ہی کیا۔
ان دو مثالوں ہم پاکستانیوں کے لئے سبق یہ ہے کہ کوئی کتنا بھی محب وطن بننے کی کوشش کیوں نہ کرے لیکن اگر اس کی اولاد اس ملک میں نہیں اور اگر اس کی اولاد کا مستقبل اس ملک سے وابستہ نہیں تو وہ مشکل پیش آنے کی صورت میں اسی طرح بھاگ سکتا ہے جس طرح اشرف غنی بھاگ گئے۔
دوسرا سبق یہ ہے کہ شوکت عزیز کی طرح یہ جو باہر سے آنے والے دانشور ہوتے ہیں، حکومت ختم ہوتے ہی بھاگ جاتے ہیں۔ چنانچہ یہ جو عمران خان کے اردگرد جمع ہونے والے امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا سے آئے ہوئے بقراط اور سقراط ہیں، جونہی ان کی حکومت ختم ہوگی تو یہ سب بھاگ جائیں گے۔
حامد کرزئی میں یہ صلاحیت تھی کہ وہ ہر طرح کے افغانوں کو ساتھ لے کر چلا سکتے تھے ۔ مثلاً انہوں نے سابق مجاہدین جنہیں وارلارڈ کہا جاتا تھا کو بھی ساتھ رکھا(حالانکہ وہ ملک میں چور اور لٹیروں کے نام سے مشہور تھے)۔ انہوں نے رشید دوستم جیسے لوگوں کو بھی گلے لگا کے رکھا۔ حتیٰ کہ لباس بھی ایسا پہنتے تھے کہ جس میں جنوب اور شمال دونوں اطراف کی قومیتوں کی نمائندگی ہوجاتی تھی۔ یوں وہ ملک میں بدنام رہے کہ انہوں نے چوروں، قاتلوں اور لٹیروں کو ساتھ رکھا ہوا ہے لیکن دوسری طرف حقیقت یہ تھی کہ اُن میں رشید دوستم جیسے بھی تھے، ازبکوں میں ان کی جڑیں تھیں۔ اسی طرح مارشل فہیم، یونس قانونی اور عبداللّٰہ عبداللّٰہ اچھے تھے یا برے لیکن تاجک انہیں اپنا لیڈر مانتے تھے۔
یہی پوزیشن ہزارہ کمیونٹی میں استاد، محقق کریم خلیلی کی تھی ۔ پختون علاقوں میں بھی انہوں نے صاحبِ حیثیت لوگوں کو مناصب دے ۔ چنانچہ وہ اشرف غنی کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ بہتر حکمران ثابت ہوئے ۔ کرپشن دونوں کی حکومتوں میں تھی لیکن ان کے دور میں طالبان کابل تو کیا کسی صوبے کو بھی فتح نہیں کرسکے ۔ دوسری طرف وہ امریکیوں کو بھی آنکھیں دکھاتے رہے۔ داخلی محاذ پر اپنے آپ کو مضبوط کررکھا تھا تو اس لئے ان میں یہ ہمت تھی کہ امریکیوں کو قطر میں طالبان سے براہ راست مذاکرات نہیں کرنے دیے ۔ جان کیری کو ڈانٹ پلاکر دفتر سے نکالا ۔ امریکیوں کے نائٹ ریڈز کی مخالفت کرتے رہے اور آخر میں ایک سال امریکی منت کرتے رہے لیکن انہوں نے ان کے ساتھ اگلے دس سال کے لئے ان کی ٹرمز پر مشتمل معاہدے پر دستخط نہیں کئے۔
دوسری طرف اشرف غنی نے صدر بنتے ہی امریکیوں کے ساتھ اس معاہدے پر دستخط کئے ۔ اس کے برعکس اشرف غنی نے مغرب میں پڑھے ہوئے حمداللّٰہ محب جیسے جوانوں یا پھر امراللّٰہ صالح جیسے بدزبانوں پر انحصار کیا، جن کی افغان سوسائٹی میں جڑیں نہیں تھیں۔ چنانچہ ان کی حکومت کا جو حشر ہوا ، وہ سب کے سامنے ہے ۔
دونوں حکومتوں کے مختلف انجام سے ہم پاکستانیوں کو یہ سبق ملتا ہے کہ حکومت وہ مضبوط ہوتی ہے جو جعلی نہیں بلکہ قوم میں جڑیں رکھنے والے اصلی نمائندوں پر مشتمل ہو ۔ ایسی حکومت خواہ چور اور کرپٹ مشہور کئے گئے لوگوں کی کیوں نہ ہو ، داخلی محاذ پر بھی کامیاب ثابت ہوتی ہے اور خارجی قوتوں کے آگے بھی ڈٹ سکتی ہے۔ لیکن اگروہ جعلی طور پر لیڈر بنائے گئے لوگوں یا پھر بدزبانوں پر مشتمل ہو تو ملک کے لئے کسی بھی وقت اشرف غنی کی حکومت ثابت ہوسکتی ہے۔
واضح رہے کہ اشرف غنی نے بھی بے تحاشہ میڈیا منیجر رکھے ہوئے تھے اور نہ صرف الیکشن مہم سوشل میڈیا کے ذریعے چلائی تھی بلکہ حکومت بھی زیادہ ترسوشل میڈیا کے زور سے چلانے کی کوشش کررہے تھے۔وہ آخری وقت تک سوشل میڈیا میں کامیاب اور محبوب ترین صدر تھے لیکن عملاً کیاتھے، وہ سب نے دیکھ لیا۔
افغان فوج حامد کرزئی کے دور میں تشکیل کے مراحل سے گزر رہی تھی اور جب انہوں نے اقتدار چھوڑا تو ایک لاکھ فوج کی بھی تربیت مکمل نہیں ہوئی تھی۔ اس کے برعکس اشرف غنی کے دور میں سیکورٹی فورسز کی تعداد تقریباً تین لاکھ ہوگئی تھی جن میں 50 ہزار اسپیشل فورسز کے لوگ تھے ۔ ان کو جدید ترین ہتھیار میسر تھے۔
ماضی میں وہ ڈٹ کر طالبان سے لڑتے رہے لیکن اشرف غنی کے دور میں یہ فوج ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ حامد کرزئی کے برعکس اشرف غنی اس فوج کو لڑائی پر آمادہ نہیں کرسکے ۔اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ اب کی بار اشرف غنی کا الیکشن بالکل عمران خان کے الیکشن کی طرح تھا ۔ ہر افغان جانتا تھا کہ یہ اصلی نہیں بلکہ جعلی حکومت ہے جو الیکشن میں دھاندلی کے نتیجے میں اقتدار میں آئی ہے ۔ چنانچہ اشرف غنی کی حکومت افغانستان میں انتہائی غیرمقبول تھی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔