29 اگست ، 2021
گزشتہ جمعرات کو کابل ایئرپورٹ کے داخلی دروازے پر دہشت گرد دھماکوں میں 175افراد جاں بحق ہوئے تھے جن میں 13امریکی اور 25طالبان بھی شامل ہیں۔ اسلامی اسٹیٹ عراق و شام (ISIS) کے خراساں گروپ نے اس دہشت گرد حملے کی ذمہ داری قبول کی ۔
تاریخ نے کیا کروٹ لی ہے کہ پہلی بار طالبان، امریکی اور برطانوی فوجیوں کا خون ایک دہشت گرد حملے میں بہا اور وہ بھی 31اگست تک امریکی اور نیٹو ممالک کی فوجوں اور دیگر لوگوں کے انخلا کی ڈیڈ لائن سے پہلے۔ ابھی دوسرے حملے کی پیشں گوئیاں ہورہی تھیں کہ ننگر ہار میں امریکہ کے ڈرونز کے جوابی حملے میں ISIS-K کے منصوبہ بندوں کے خاتمے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
ہر دو واقعات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ افغانستان میں امن ہنوز دور ہے اور ایک جنگ کے ختم ہوتے ہی دوسری جنگ شروع ہوگئی ہے۔ اور اس جنگ میں گزشتہ جنگ کے متحارب نہ چاہتے ہوئے بھی اتحادی بنتے نظر آرہے ہیں۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اسلامی امارات افغانستان کے ساتھ دوحہ معاہدے کی رورسوا ہونے کے باوجود فوجوں کے انخلا کا وعدہ پورا کردیا ہے جبکہ اس معاہدے کی دوسری شق کہ طالبان افغانستان کی سرزمین کو کسی ملک کے خلاف دہشت گردی کےلئے استعمال نہیں ہونے دیں گے پر عمل درآمد شروع ہونے سے پہلے ہی طالبان کو اسی طرح کے چیلنج کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جیسا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو طالبان سے 20 برس تک درپیش رہا۔
دوحہ معاہدے کی اس دوسری شق میں ابتداً تو امریکہ اور طالبان بظاہر اکٹھے ہوتے نظر آرہے ہیں، آگے اس کی کیا صورت بنتی ہے، اس پر عالمی سطح پر طالبان سے صلاح مشورہ ہورہا ہے۔ اگر طالبان دیگر دہشت گرد گروہوں کو عالمی دہشت گردی سے نہیں روک پائے تو پھر عالمی طاقتیں وہی کریں گی جو داعش کے خلاف انہوں نے عراق اور شام میں 2014ء میں کیا۔ بوٹ زمین پہ رکھے جائیں گے یا پھر ہوائوں سے گولہ باری، کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
تحریک طالبان افغانستان ایک افغانی اسلامی شدت پسند تنظیم ہے جس کے رہنمائوں کے نام اب بھی اقوام متحدہ اور مختلف ممالک کی دہشت گردوں کی فہرستوں میں شامل ہیں جن میں کابل کی سیکورٹی کے انچارج حقانی بھی شامل ہیں۔ افغان طالبان اور تحریک طالبان پاکستان میں اتنا گہرا رشتہ ہے کہ اس کے ہر امیر اور موجودہ امیر مفتی نور ولی نے طالبان کے ہر امیر کی بیعت کی۔ یوں وہ افغان طالبان کے امیر کے ہر حکم کو ماننے پر ’’شرعاً‘‘ مجبور ہیں (تفصیلات کےلئے ملاحظہ کیجئے سلیم صافی کا کالم)۔
افغان طالبان نے اسلام آباد کی پراکسی کیا بننا تھا اور کتنا بننا تھا،اُس کے برعکس تحریک طالبان پاکستان نے پاکستان کی امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شمولیت کے خلاف طویل جنگ کی اور پورے ملک کو دہشت گردی سے کئی برس تک برباد کئے رکھا۔ افغان طالبان پاکستان کے خلاف اپنی پراکسی TTP کو کیسے اُس کے حوالے کرسکتے ہیں جبکہ بے وطن TTP کے مجاہدین کے لئے دو عالمی جہادیتنظیمیں القاعدہ اور اسلامی ریاست خراسان کے دروازے کھلے ہیں۔
داعش (ISIS) نے عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں میں خلافت قائم کی تھی جس کا رقبہ برطانیہ کے برابر تھا۔یہ پیدا تو القاعدہ ہی کے بطن سے ہوئی تھی، لیکن جلد ہی یہ القاعدہ کو پیچھے چھوڑ کر جہادیوں کی عالمی توجہ کا مرکز بن گئی۔ افغانستان میں اس نے اپنے ڈیرے ننگر ہار اور دوسرے صوبوں میں ڈالے۔ اب اس کا امیر شہاب المہاجر ہے۔ اقوام متحدہ کی جون کی رپورٹ کے مطابق امریکی انخلا سے پہلے کچھ مہینوں میں آٹھ سے دس ہزار جہادی جنگجو وسط ایشیائی ریاستوں ، روس کے شمالی قفقاز، پاکستان اور چین کے صوبہ سنکیانگ کے یغور افغانستان میں داخل ہوئے تھے۔
ان میں سے کچھ طالبان اور زیادہ تر اسلامی ریاست خراساں میں شامل ہوئے۔ طالبان کے ٹی ٹی پی کے علاوہ القاعدہ سے قریبی روابط ہیں، لیکن اسلامی ریاست خراساں طالبان کو امریکہ کا ایجنٹ قرار دے رہی ہے اور اس کے خلاف برسرپیکار ہے۔ طالبان کے کچھ ناراض جنگجو بھی اس کے ساتھ شامل ہوگئے ہیں جو داعش خراساں کی طرح قومیت میں یقین نہیں رکھتے بلکہ عالمی جہاد کے قائل ہیں۔
امریکہ کے لئے اب ایک نیا عذاب کھڑا ہوگیا ہے اور آئی ایس خراسان نے 26 اگست کی بڑی دہشت گردی سے امریکہ اور طالبان کے خلاف اعلان جنگ کردیا ہے۔ اس حملے کے نتیجہ میں افغان طالبان ایک بڑے مخمصے میں پھنس گئے ہیں۔ ایک طرف وہ مجبور ہوں گے کہ وہ افغانستان کے دوسرے بڑے سیاسی فریقوں کو ساتھ ملا کر وسیع تر حکومت بنائیں کیونکہ جو بھی باہر رہ جائے گا وہ خانہ جنگی کا راستہ لے گا۔
طالبان کو عالمی پذیرائی اور امدا دکی شدید ضرورت ہے۔ وہ ایک کامیاب مسلح تحریک تو تھے، لیکن بدلے ہوئے افغانستان کو چلانے کے لئے انہیں وہ بچی کچی ریاستی مشینری درکار ہوگی جو بیس برسوں میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے بنائی تھی۔ یہ تب ہی ممکن ہوگا جب اسلامی امارات عالمی برادری کی کٹھن شرائط تسلیم کرے گی اور جدید افغانی عناصر اور خاص طور پر خواتین کے حقوق کا احترام کرے گی۔
دوسری طرف یہ ہوگا کہ جتنا افغان طالبان مصالحت کی طرف جائیں گے جو ان کی معروضی مجبوری ہے، اتنا ہی وہ اپنی صفوں میں موجودہ زیادہ شدت پسند عناصر کو بیگانہ اور ناراض کریں گے۔ ان کے اندر گروہ بندی بڑھے گی جس کا فائدہ داعش خراساں اور القاعدہحاصل کرے گی۔
تحریک طالبان پاکستان پر وہ دباؤ بڑھائیں گے تو وہ بھی زیادہ تر داعش خراساں کی طرف چلے جائیں گے۔ افغانستان کی سرزمین جہادیوں کے لیے بڑی ذرخیز ہے اور تاریخی طور پر افغانستان اپنی پرانی ڈگر پر جمے رہنے پر بضد ہے۔ جنگی معیشت اس کا بڑا وسیلہ ہے اور قبائلی خلفشار نے افغانوں کے قومی مقدر کو تار تارکئے رکھا ہے۔ ایک جنگ ختم ہوئی، دوسری جنگ شروع۔ افغان باقی، کہسار باقی!
(میرے گزشتہ کالم ’’افغانستان ، طالبان اور دو راہائے عمل‘‘ میں شاہ ولی ﷲ کے حوالے سے مرزا محمد رمضان صاحب نے ایک تفصیلی تبصرہ کیا ہے ان کا موقف درست ہے کہ شاہ ولی ﷲ کے خیالات اور ابن عبدالوہاب کے نظریات میں بہت فرق ہے۔ یقینا شاہ ولی ﷲ کی فکر میں ابن عربی اور شیخ سرہندی کے افکار کے اثرات موجود ہیں۔ شاہ ولی ﷲ وہابی نہیں تھے اور یہی فرق دیو بندی مکتب کو وہابی مکتب سے جدا کرتا ہے۔ مرزا رمضان صاحب کی تصحیح کا شکریہ ان کا جواب badalo.com.pk میں شائع کیا جارہا ہے۔)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔