30 اگست ، 2021
چند روز قبل وزیر اعظم عمران خان نے لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوے خواتین سے ناروا سلوک کے حالیہ تشویش ناک واقعات کے حوالے سے والدین سے کہا کہ اپنے بچوں کی تربیت کریں۔
مریم نواز کی طرف سے بھی ان واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوے زور دیا گیا کہ والدین، اساتذہ اور سیاسی رہنما بچوں کی تربیت پر توجہ دیں۔ کاش اس اہم مسئلے پر ہی حکومت اور اپوزیشن ایک ساتھ بیٹھ کر ایک نیشنل ایکشن پلان بنائیں کیوں کہ صرف بچوں کی ہی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی تربیت اور کردار سازی کی ہمیں اشد ضرورت ہے جس کی طرف میں کئی سال سے بار بار حکمرانوں، سیاستدانوں اور میڈیا کی توجہ دلا رہا ہوں۔
اقدار، اخلاقیات، تمیز اور شرم و حیا کے بغیر ہم تباہ و برباد ہو جائیں گے اور سچ پوچھیں تو ہم تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ اگر کردار سازی اور تربیت پر زور نہیں دیا جائے گا تو مسئلہ صرف خواتین سے ناروا سلوک تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کے زندگی کے ہر شعبہ پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں کسی بھی شعبہ کو لے لیں ہر طرف مایوسی ہی مایوسی کی قصے کہانیاں ہیں۔ بحیثیت قوم رشوت، سفارش، بے ایمانی، ملاوٹ، جھوٹ، فراڈ ، دھوکہ ہمارا ٹریڈ مارک بن چکا ہے۔
جائز کام کروانے کے لیے بھی رشوت دینا پڑتی ہے، سودا لینے جائیں تو ملاوٹ کے بغیر کچھ ملتا نہیں، یہاں تو دودھ کے نام پر کیمیکل سے بنا سفید liquid بیچا جاتا ہے، زندگی بچانے والی ادویات تک جعلی فروخت کی جا رہی ہیں۔ ہمارے سیاستدان ہوں، سرکاری افسر، جج ہوں، جرنیل، ڈاکٹر ہوں، انجینئر، صحافی یا عام کاروباری افراد، جس طرف دیکھیں خرابیاں ہی خرابیاں نظر آتی ہیں۔ اچھے لوگ کم ہی نظر آتے ہیں۔ خرابیاں پیدا کرنے والے بڑی تعداد میں ملتے ہیں۔
یہ سب تربیت اور کردار سازی کے نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ اسی لیے میں سمجھتا ہے کہ اگر ہمیں اچھے سیاستدان، جج، جرنیل، صحافی، ڈاکٹر، انجینئر، وزیر مشیر، تاجر وغیرہ پیدا کرنے ہیں اور اپنے ملک اور معاشرے کے حالات کو بہتر کرنا ہے تو اس کے لیے جنگی بنیادوں پر معاشرے کی کردار سازی اور تربیت پر کام کرنا ہو گا اور یہ کام صرف والدین کا نہیں، اس کے لئے ریاست کو مرکزی کردار ادا کرنا ہو گا۔
تربیت کے لیے اسکولوں کا کردار بہت اہم ہے، اس سلسلے میں میڈیا بہت مثبت رول ادا کر سکتا ہے، سیاسی پارٹیوں کو اس بارے میں مہم چلانی چاہیے، سرکاری اداروں اور نجی شعبوں میں اس بارے میں ایک سکیم کے تحت اصلاحی ماحول اجاگر کیا جانا چاہیے۔ صرف والدین پر تربیت کے معاملے کو چھوڑنے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ اگرچہ والدین کا رول بہت اہم ہے لیکن اگر میڈیا کو ٹھیک نہ کیا گیا، سوشل میڈیا کو گندگی سے صاف نہ کیا گیا، تعلیمی اداروں کے ماحول کو مغربی کلچر اور نشہ سے پاک نہ کیا گیا، تو پھر بچوں کے لیے خطرات موجود رہیں گے۔
ماں باپ تعلیم کے حصول کے لیے اپنے بچوں کو اسکول کالج بھیجتے ہیں لیکن وہاں کا ماحول ایسا ہے کہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں اُنہیں نشہ کی لت لگانے کا دھندہ خوب زوروں پر چل رہا ہے۔ جو نشہ سے بچ جائے اُس کے لیے تعلیمی ادارے لو افئیرز چلانے کا پلیٹ فارم مہیا کر رہے ہیں اور اسی کی تعلیم ہمارا میڈیا اور سوشل میڈیا دے رہا ہے۔ ان خطرات کے ساتھ ساتھ، اب تو چند ایک نجی تعلیمی اداروں کے بارے میں یہ تاثر بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ نوجوان ذہنوں کو دین سے دور لادینیت کی طرف لے جا رہے ہیں۔
یعنی گھر سے بچوں کو تعلیمی اداروں میں علم کے حصول کے لیے بھیجنے والے والدین کو یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ نجانے اُن کا بیٹا بیٹی کسی خطرے سے دوچار تو نہیں ہوں گے۔ اس لیے اگر معاشرے کو سدھارنا ہے تو ریاست کو بنیادی کردار ادا کرنا ہوگا اور سیاسی جماعتوں کو اس سلسلے میں ریاست کو مکمل سپورٹ کرنا چاہیے۔ یہ کام جلد از جلد شروع کیا جانا چاہیے کیوں کہ تباہی و بربادی پہلے ہی بہت ہو چکی۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔