02 ستمبر ، 2021
عمومی طور پر جو خبریں پڑھنے سننے کو ملتی ہیں وہ کوئی اچھی نہیں ہوتیں۔ آئے دن کے سانحات اور واقعات کے بارے میں سن کر دل دکھی ہوتا ہے۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کچھ اچھا سننے کو ملے اور جسے سن کر دل باغ باغ ہو جائے۔
اس ماحول میں اگر کوئی فرد اپنی زندگی کو واقعتاً دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کرتا ہے تو وہ کوئی عام آدمی نہیں ہو سکتا۔ اُس کے پاس خوب پیسہ کمانے اور اپنے کام کی وجہ سے بہت شہرت حاصل کرنے کا بھی موقع ہو لیکن وہ ایسا نہ کرے بلکہ چپ چاپ اپنا کام کرتا جائے تو وہ واقعی کوئی بڑا شخص ہے۔
آج میں آپ کو ایک ایسے ہیرو سے ملواتا ہوں جنہیں میں کبھی نہیں ملا۔ بلکہ اس کالم کو لکھنے سے پہلے اُن سے بات کرنا چاہتا تھا لیکن پتا چلا کہ وہ تو موبائل ہی نہیں رکھتے۔ ویسے تو ہمارے ہاں ہیروز کی بہت کمی ہے کیوں کہ معاشرہ میں تربیت اور کردار سازی کے نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے ارد گرد جہاں دیکھیں آپ کو ولن ہی ولن ملیں گے لیکن سر راشد جن کا پورا نام راشد چیمہ ہے، بہت کمال کے آدمی ہیں۔
اُن کا تعلق درس و تدریس ہے اور وہ راولپنڈی میں صدیق پبلک اسکول کے نام سے نجی تعلیمی اداروں کو چلاتے ہیں جن میں ہزاروں بچے اور بچیاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ پرائیوٹ اسکول بہت سے ہیں اور کئی پرائیویٹ اسکول اس لئے اہم بن جاتے ہیں کہ اُن کا رزلٹ بہت اچھا ہوتا ہے۔
اگرچہ سر راشد کے اسکول کے بچے بورڈز میں اہم پوزیشنز لینے اور اچھے رزلٹ دینے کی وجہ سے جانے جاتے ہیں جبکہ ان کی فیس بھی دوسروں کے مقابلہ میں بہت کم ہوتی ہے لیکن جس بات نے مجھے متاثر کیا وہ سر راشد کے اسکول میں غریب یتیم بچوں کو مفت تعلیم کی فراہمی ہے۔
بس شرط صرف یہ ہے کہ بچے میں قابلیت اور پڑھنے کا شوق ہو۔ ایک نہیں دو نہیں، دس نہیں بیس نہیں بلکہ سینکڑوں بچے سر راشد کے اسکولوں میں بالکل فری تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ میرے ایک جاننے والے نے مجھے بتایا کہ اُس کا کزن، جس کے بچے سر راشد کے اسکول میں پڑھتے تھے، وہ فوت ہو گیا۔
بچوں کو فیس کا مسئلہ تھا لیکن جیسے ہی سر راشد کو بتایا گیا کہ بچوں کا والد فوت ہو گیا، اُن سب کی تعلیم فری کر دی گئی۔ صرف یہی نہیں بلکہ مجھے یتیم بچوں کی پرورش، دیکھ بال اور تعلیم و تربیت کے لئے اپنی مثال آپ سویٹ ہوم کے زمرد خان (جو پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق ایم این اے ہیں) نے بتایا کہ سویٹ ہوم کے دو سو بچے بچیوں کو سر راشد اپنے اسکول میں مفت تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔ ان میں سے کئی بچے بچیاں میٹرک اور ایف ایس سی کر رہی ہیں۔
یہاں میں بتاتا چلوں کہ زمرد خان صاحب اُن لوگوں میں سے جن کی میرے دل میں بہت قدر ہے اور اُس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اُنہوں نے اپنی زندگی کو سویٹ ہوم میں بسنے والے یتیم بچوں کے لئے وقف کر رکھا ہے۔ ان یتیم بچوں بچیوں کو وہ ایک باپ کی طرح Treatکرتے ہیں جو میں نے خود بھی دیکھا۔
زمرد خان کو سیاست کی وجہ سے پہلے ہی جانا جاتا تھا، وہ مشہور آدمی تھے لیکن جب سے اُنہوں نے سویٹ ہوم کی ذمہ داری سنبھالی اور جس شوق اور جوش سے وہ یتیم بچوں بچیوں کا خیال رکھتے ہیں اور اُن کی تعلیم و تربیت پر توجہ دیتے ہیں، اُس کے بنا پر میری نظر میں وہ ایک بہت بڑے آدمی ہیں جو اپنے اس عمل کی وجہ سے قابلِ تقلید ہیں۔
سر راشد کے متعلق میری زمرد خان صاحب سے بات ہو رہی تھی تو اُنہوں نے مجھے بتایا کہ اس سال سے وہ یتیم بچوں کے لئے گجر خان کے علاقہ میں ایک کیڈٹ کالج شروع کر رہے ہیں جس کی بلڈنگ تیار ہو چکی، ہوسٹل بھی تیار ہے اور اس کیڈٹ کالج کے ایڈمشن ہونے جا رہے ہیں۔ اس کیڈٹ کالج کی تمام تعلیم کا بندوبست سر راشد نے کیا اور اس کے لئے وہ ایک پیسہ بھی نہیں لے رہے۔
زمرد خان نے بتایا کہ یتیم بچوں کی کیڈٹ کالج میں تعلیم اُن کا ہوسٹل اور کھانا پینا سب کچھ فری ہو گا جس میں سر راشد کا بہت اہم کردار ہے۔ پانچ ستمبر کو یتیموں کے لئے مختص اس پہلے کیڈٹ کالج کے ایڈمشن کے لئے سر راشد کے ہی ایک اسکول میں ٹیسٹ لئے جائیں گے اور جو میرٹ پر پورا اترے گا اُسے فری تعلیم فری رہائش ملے گی۔
میرے سوال پر زمرد خان کہنے لگے کہ سر راشد ایک درویش آدمی ہیں جنہوں نے واقعتاً اپنی زندگی درس و تدریس کے لئے وقف کر دی اور اب تک ہزاروں یتیم اور غریب بچوں کو مفت معیاری تعلیم دی۔ نہ کوئی لالچ نہ تعلیم کو کاربار بنانے کا رجحان۔ میرا ایک کزن سر راشد کا کئی سال پہلے سٹوڈنٹ رہا۔ وہ بتایا ہے کہ سر راشد کے پاس تو گاڑی تک نہیں۔ وہ ٹیکسی میں اسکول آتے ہیں اور ٹیکسی میں ہی رات گئے اسکول سے واپس جاتے ہیں۔
پرائیوٹ اسکول تو بزنس اور پیسہ کمانے کا بہت زبردست ذریعہ ہیں لیکن سر راشد بقول زمرد خان ایک مختلف قسم کے آدمی ہیں، اُن جیسے لوگوں کی معاشرہ میں بہت کمی ہے۔ میرا کزن بتاتا ہے کہ سر راشد کے اسکولوں میں تربیت اور کردار سازی پر بھی بہت زور دیا جاتا ہے اور یہ ممکن نہیں کہ اسکول کے احاطہ میں کوئی بچہ سگرٹ تک پی لے۔
افسوس کہ ہمارا میڈیا فلموں ڈراموں اور شو بز کے افراد کو ہیروز بنا کر پیش کرتا ہے اور ہماری حکومتیں بھی اُنہی کو سول ایوارڈ کے لئے نامزد کرتی ہیں جبکہ سر راشد جیسے اصل ہیروز پر نہ میڈیا کی نظر پڑتی ہے نہ ہی حکوتیں ایسے ہیروز کی قدر کرتی ہے۔ ویسے سول ایوارڈز جس جس قسم کے جعلی لوگوں کو مختلف حکومتوں نے دیے اُنہیں دیکھ کر مجھے نہیں لگتا ہے کہ سر راشد جیسا شخص کوئی ایوارڈ لینے میں دلچسپی لے گا۔ ایسے ہیروز معاشرہ کے لئے قابل تقلید ہیں، اُنہیں اور اُن کے عظیم کام کو سراہنا چاہئے۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔