طالبان کا وادی پنجشیر کے تمام اضلاع پر کنٹرول کا دعویٰ

ہمارےجنگجوؤں کو طالبان پر سبقت حاصل ہے: ترجمان مزاحمتی فورس۔ فوٹو: فائل
  ہمارےجنگجوؤں کو طالبان پر سبقت حاصل ہے: ترجمان مزاحمتی فورس۔ فوٹو: فائل

افغان طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے اب تک ناقابل تسخیر رہنے والی وادی پنجشیر پر بھی کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔

 طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ وادی پنجشیر کے تمام  اضلاع پر ان کا کنٹرول ہے ۔ طالبان ذرائع کے مطابق سابق افغان نائب صدر  امر اللہ صالح کے تاجکستان فرار ہونے کی اطلاعات ہیں۔

تاہم افغان نشریاتی ادارے طلوع نیوز کے مطابق امراللہ صالح نے ان افواہوں کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ افغانستان میں ہی موجود ہیں۔ انہوں نے پنجشیر سے طلوع نیوز سے خصوصی گفتگو کی۔

ہمارےجنگجوؤں کو طالبان پر سبقت حاصل ہے، ترجمان مزاحمتی محاذ

دوسری جانب قومی مزاحمتی محاذ افغانستان (این آر ایف اے) کے خارجہ تعلقات کے سربراہ اور ترجمان علی میثم نظری نے اپنی ٹوئٹ میں کہا ہے کہ میڈیا کو طالبان کے پروپیگنڈے پر یقین نہیں کرنا چاہیے، پنجشیر پر قبضے کا طالبان کا دعویٰ درست نہیں ، این آر ایف نے بہادری سے ان کے تمام حملوں کو ناکام بنایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ  ہمارےجنگجوؤں کو  طالبان پر سبقت حاصل ہے، پنجشیر وادی کےشمال مشرق میں طالبان جنگجوؤں کو گھیر لیا ہے، پنجشیر میں کچھ سو  طالبان جنگجو  پھنسےہوئے ہیں، پنجشیرمیں طالبان کا جنگی سامان ختم  ہو رہا ہے،  پنجشیرمیں طالبان ہتھیار ڈالنےکی شرائط پرمذاکرات کررہےہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے مخالفین کو بھاری نقصان پہنچانے کا دعویٰ کیا تھا جبکہ احمد مسعود کی سربراہی میں طالبان کے خلاف مزاحمت کرنے والے قومی مزاحمتی پرنٹ افغانستان (این آر ایف اے) کے ترجمان نے بھی طالبان جنگجوؤں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا۔

کل ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ ’مقامی مسلح گروپ کے ساتھ مذاکرات ناکام ہونے کے بعد ہم نے ان کے خلاف آپریشن شروع کردیا ہے۔‘

ذبیح اللہ مجاہد نے دعویٰ کیا کہ طالبان کے جنگجو پنجشیر میں داخل ہوگئے ہیں اور انہوں نے بعض علاقوں کا کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔

طالبان کیخلاف مزاحمتی تحریک کے مقاصد کیا ہیں؟

اطلاعات کے مطابق پنجشیر سوویت یونین کے دور سے اب تک تقریباً آزاد ہی رہا ہے اور ہر دور میں مزاحمت جاری رکھی ہے۔

طالبان کے آخری دور حکومت میں بھی بلخ، بدخشاں اور پنجشیر میں طالبان کا نظام حکومت نافذ نہیں تھا البتہ اس بار طالبان نے بلخ اور بدخشاں پر کنٹرول قائم کرلیا ہے لیکن پنجشیر اب بھی ان کے کنٹرول میں نہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق مزاحمتی تحریک کا ایک مقصد تو طالبان کے ساتھ شراکت اقتدار ہوسکتا ہے جس میں اہم ترین شرط پنجشیر کی خودمختاری شامل ہوسکتی ہے۔

ماضی میں طالبان کے زیر اثر نہ رہنے کی وجہ سے احمد مسعود اور ان کے ساتھ موجود دیگر قوتیں اب بھی اپنے طور پر آزادانہ نظام کی خواہاں ہیں کیوں کہ ان خوف ہے کہ طالبان کا نظام حکومت سخت قوانین پر مشتمل ہوسکتا ہے۔

وادی پنجشیر ناقابل تسخیر کیوں؟

افغان صوبہ پنجشیر اب بھی ناقابل تسخیر ہے اور طالبان بھی اب تک وہاں داخل نہیں ہوسکے ہیں۔ پنجشیر اس سے قبل پروان صوبے کا حصہ تھا جسے 2004 میں الگ صوبے کا درجہ دیا گیا۔

پنجشیر صوبے کا دارالحکومت بازارک ہے، یہ سابق جہادی کمانڈر اور سابق وزیر دفاع احمد شاہ مسعود کا آبائی شہر ہے۔

طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد احمد شاہ مسعود نے 90 کی دہائی میں وادی کا کامیاب دفاع کیا تھا جبکہ اس سے قبل سابقہ سوویت یونین کی فوج بھی اس وادی میں داخل نہیں ہوسکی تھی اور متعدد حملوں کے باوجود ہر دفعہ یہ وادی ناقابل تسخیر رہی۔

مزید خبریں :