Time 04 ستمبر ، 2021
بلاگ

اشرف غنی اور عمران خان

کچھ حوالوں سے دونوں ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔ ڈاکٹر اشرف غنی بچپن میں کھیل کود سے دور رہے اور مطالعہ کی عادت اپنا لی جبکہ عمران خان صاحب بچپن سے کھلاڑی اور کرکٹر رہے تاہم اشرف غنی کو بھی والد نے تعلیم کے لئے بیرون ملک بھیجا اور عمران خان بھی آکسفورڈ میں پڑھے۔

 وزیراعظم بننے سے پہلے عمران خان نے بھی کتابیں لکھیں اور اشرف غنی نے بھی۔ عمران خان کی کتابیں ان کی ذات سے متعلق تھیں جس میں انہوں نے یہ تاثر دیا تھا کہ وہ پاکستان کے لئے مسیحا ثابت ہو سکتے ہیں جبکہ اشرف غنی کی کتاب ان کی ذات سے متعلق نہیں تھی بلکہ اس میں ناکام ریاستوں کو کامیاب بنانے پر علمی بحث کی گئی تھی۔ 

البتہ جس طرح تقریروں اور کتابوں کے ذریعے عمران خان نے پاکستانی عوام اور مقتدر حلقوں کو اس غلط فہمی میں مبتلا کیا کہ وہ پاکستان کے مسائل کو حل کر سکتے ہیں اسی طرح اشرف غنی نے بھی مشرق و مغرب میں اپنے لیکچرز اور مذکورہ کتاب کے ذریعے امریکی حکمرانوں اور افغان انٹیلی جینسیا کو یہ تاثر دیا کہ ناکام افغانستان کو وہ ہی ایک کامیاب افغانستان بنا سکتے ہیں۔

 عمران خان اور اشرف غنی میں ایک مشترک عادت میڈیا اور سوشل میڈیا پر انحصار کی تھی جس طرح انتخابات سے قبل عمران خان نے میڈیا کو بھرپور طریقے سے اپنے حق میں اور مخالفین کے خلاف استعمال کیا، اسی طرح اشرف غنی نے بھی میڈیا کو اپنے حق میں بھرپور طریقے سے استعمال کیا جبکہ امریکہ اور انڈیا کے زیر اثر میڈیا سے بھی خوب کام لیا۔ 

جس طرح عمران خان نے انتخابات سے قبل اپنے حق میں مہم چلانے اور مخالفین کی کردار کشی کے لئے پاکستان کے اندر اور پاکستان سے باہر سینکڑوں ماہرین کی خدمات حاصل کیں، اسی طرح اشرف غنی نے بھی انتخابی مہم کے دوران سوشل میڈیا ماہرین کی مدد حاصل کی جو انہیں مسیحا ثابت کرنے اور ان کے مخالفین کا منفی تاثر اجاگر کرنے میں کوشاں رہتے۔ 

جس طرح عمران خان کو وزیراعظم بنوانے کے لئے انتخابات سے قبل بھرپور طریقے سے اُن کے حق میں پولیٹیکل انجینئرنگ کی گئی، اسی طرح اشرف غنی کے حق میں بھی امریکہ اور پاکستان نے پولیٹیکل انجینئرنگ کی البتہ افغانستان میں چونکہ قومی ادارے فعال نہیں تھے، اس لئے یہ خدمت افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اشرف غنی کے لئے انجام دی۔

 جس طرح عمران خان کا الیکشن متنازعہ تھا، اسی طرح اشرف غنی کا الیکشن بھی متنازعہ تھا۔ دوسری مرتبہ تو ان کی جیت کا کوئی امکان ہی نہیں تھا لیکن یہاں جو کام آر ٹی ایس سسٹم سے لیا گیا، افغانستان میں وہ کام الیکشن کمیشن کے ارکان سے لیا گیا اور جس طرح قوم کے وسیع تر مفاد میں عمران خان کو وزیراعظم منوایا گیا، افغانستان میں پہلی مرتبہ یہ خدمت جان کیری نے اور دوسری مرتبہ حامد کرزئی صاحب نے سرانجام دی۔

 تاہم پاکستان میں چونکہ اپوزیشن ڈٹ نہیں سکی، اس لئے اسے کچھ نہیں ملا لیکن افغانستان میں چونکہ عبداللہ عبداللہ کی قیادت میں جینوئن اپوزیشن تھی، اس لئے دونوں مرتبہ ان کو حصہ دے کر راضی کر لیا گیا۔ عمران خان نے بھی یہ نعرہ لگایا تھا کہ وہ روایتی سیاست کا خاتمہ کریں گے اور اشرف غنی نے بھی کہا تھا کہ وہ روایتی وار لارڈز کو سیاست سے آؤٹ کریں گے لیکن اقتدار کی خاطر جس طرح عمران خان نے تمام جماعتوں سے الیکٹ ایبلز کو اپنے گرد جمع کیا، اسی طرح اشرف غنی نے بھی اقتدار کے لئے رشید دوستم جیسے لوگوں کو فیلڈ مارشل کے تمغے لگائے۔

 حکومت تک رسائی کے لئے روایتی لوگوں کو سہارا لیا لیکن جس طرح حکومت ملنے کے بعد عمران خان نے امریکہ، برطانیہ اور باہر سے آئے ہوؤں کو اپنے گرد جمع کیا، اشرف غنی نے بھی مغرب سے آئے ہوئے حمداللہ محب جیسے لوگوں کو جمع کیا ۔ جس طرح عمران خان کی حکومت میں پوری کابینہ ایک طرف اور بیوروکریسی دوسری طرف والی کیفیت ہے، اسی طرح اشرف غنی کی پوری کابینہ کے پاس عملاً وہ اختیارات نہیں تھے جس طرح کہ ان کے قریبی ساتھی ڈاکٹر فاضل محمود فضلی کو حاصل تھے۔

 جس طرح عمران خان مسٹر کلین مشہور ہیں لیکن ان کے حکومت میں ہر طرف کرپشن ہی کرپشن ہے، اسی طرح اشرف غنی بھی آخری وقت تک مسٹر کلین مشہور تھے لیکن ان کی حکومت میں کرپشن عروج پر تھی اور آخر میں یہ بھی پتہ چلا کہ وہ خود بھی حقیقتاً مسٹر کلین نہیں۔ ایک اور قدر مشترک یہ تھی کہ جس طرح عمران خان کے بیٹے برطانیہ میں ہیں، اسی طرح اشرف غنی کی اولاد بھی امریکہ میں مقیم ہے۔

 ایک اور قدر مشترک ملی نغموں اور گانوں کے استعمال کی ہے جس طرح عمران خان کو مسیحا ثابت کرنے کے لئے گانے بنائے گئے، اسی طرح اشرف غنی نے بھی زیادہ انحصار نغموں پر کیا۔ اشرف غنی اور افغان نیشنل آرمی کے بارے میں ایسے نغمے بنائے گئے تھے کہ انہیں سن کر ہر پختون اپنے جذبات کو قابو میں نہیں رکھ سکتا تھا لیکن ہم نے دیکھ لیا کہ وہ نغمے کسی کام نہ آئے۔

 اشرف غنی نے حکومت سازی کے لئے روایتی چہروں کا سہارا لیا لیکن اکثر صوبے اہل اور معاشرے میں اثرورسوخ رکھنے والے لوگوں کی بجائے اپنے قابلِ اعتماد اور زیر کنٹرول بزداروں کے حوالے کئے تھے، یہی وجہ ہے کہ وقت آنے پر وہ گورنر طالبان کی مزاحمت نہ کر سکے بلکہ جان کی امان کے بدلے صوبے طالبان کے حوالے کرنے پر تیار ہوئے۔

 اس حوالے سے بھی عمران خان اور اشرف غنی کی حکمت عملی ایک سی تھی۔ عمران خان کی طرح اشرف غنی کا ماضی بھی سیکولرازم اور لبرل ازم سے عبارت تھا لیکن جس طرح عمران خان اقتدار میں آنے کے بعد مذہبی کارڈ کا بھرپور استعمال کررہے ہیں، اسی طرح اشرف غنی بھی ساری زندگی لبرل اور سیکولر خیالات کے حامل رہے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد نہ صرف مذہبی کارڈ استعمال کرتے رہے بلکہ آخر میں تو ’’اللہ اکبر‘‘ کو سرکاری نعرہ بھی بنا لیا۔ 

جس طرح عمران خان اپنے آپ کو سپرنیشنلسٹ ثابت کررہے ہیں، اسی طرح اشرف غنی بھی اپنے آپ کو سپرنیشنلسٹ ثابت کرتے ہوئے اکثر اوقات سینہ دکھایا کرتے تھے کہ وہ اس پر گولی کھائیں گے لیکن میدان نہیں چھوڑیں گے لیکن جونہی مشکل وقت آیا، وہ اپنے ساتھیوں اور افغانوں کو چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ بس میری دعا ہے کہ اس معاملے میں عمران خان اور اشرف غنی ایک جیسے ثابت نہ ہوں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔