09 ستمبر ، 2021
گزشتہ دنوں پاکستان کرکٹ ٹیم کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کیلئے اسکواڈ کا اعلان کیا گیا ہے اور ٹیم میں شامل کھلاڑیوں کو دیکھ کر یہ گمان ہوتا ہے کہ اس بار بھی ورلڈ کپ کوئی اور ٹیم ہی جیت جائے گی اور ہمار ی ٹیم ہر مرتبہ کی طرح صرف ’قوم کے دل‘ جیت کر واپس لوٹے گی۔
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا انعقاد 5 سال بعد متحدہ عرب امارات میں 17 اکتوبر سے ہورہا ہے اور مختلف ٹیمیں بھرپور تیاریوں میں مشغول ہیں کہ کسی طرح یہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی ٹرافی ہم جیت لیں۔
پاکستان ٹیم کی بات کریں تو یہاں استعفوں کے بادل چھائے ہوئے ہیں ، پوری قوم پچھلے 2 سالوں سے اس انتظار میں تھی کہ ہمارا کوچنگ اسٹاف ( سابق ہیڈ کوچ مصباح الحق اور وقار یونس) قومی ٹیم کا کمبی نیشن بنا رہا ہے ۔
مگر یہاں تواصل امتحان سے پہلے ہی ہمارے محترم کوچز ٹیم کو چھوڑ کر استعفیٰ دے کر یہ گئے وہ گئے ۔
قومی کرکٹ ٹیم کے چیف سلیکٹر محمد وسیم نے گزشتہ دنوں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کیلئے قومی ٹیم کے15 رکنی اسکواڈ کا اعلان کیا تھا ،جس کے بعد شائقین اور سابق کرکٹرز کی جانب سے کافی تنقید کی جارہی ہے ۔
مختصر فارمیٹ کے سب سے بڑے ایونٹ میں جارح مزاج بیٹسمین شرجیل خان ٹیم میں شامل ہیں اور نہ ہی فخر زمان ۔
اگر اسکواڈ پر نظر ڈالیں تو بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ ٹیم ورلڈ کپ ٹی ٹوئنٹی کیلئے نہیں بلکہ تیسرے درجے کی کسی ٹیم کے خلاف سیریز کیلئے سلیکٹ کی گئی ہے ۔
عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ ورلڈ کپ جیسے اہم ایونٹ کیلئے یا تو آپ اپنے سینیئر پلیئرز کے ساتھ جاتے ہیں اور ان کا تجربہ استعمال کرتے ہیں یا پھر آپ اپنے بیسٹ کمبی نیشن جو نوجوان اور سینیئرز پر مشتمل ہوتا ہے ان کے ساتھ جاتے ہیں۔
مگر ہماری ٹیم سلیکشن میں اس کے بر عکس ہوا ہے ، نہ تو ہم نے سینیئرز کو ٹیم میں ڈالا اور نہ ہی ایسے کھلاڑی ٹیم میں شامل کیے جو پچھلی کئی سیریز سے اچھی پرفارمنس دے رہے ہیں۔
شائقین کو توقع تھی کہ شرجیل خان ، فخر زمان اور شعیب ملک جیسے تجربہ کار کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کیا جائے گا ، شعیب ملک کافی عرصے سے ٹیم کے ساتھ نہیں ہیں لیکن ہم نے ان کے بغیر زمبابوے، جنوبی افریقا، انگلینڈ جیسی ٹیموں کے خلاف اپنے مڈل آرڈر کا حال دیکھا ہوا ہے ، سابق کرکٹرز اور شائقین یہی اُمید کررہے تھے کہ حفیظ اور شعیب ملک مڈل آرڈر کے مسئلے کو حل کرلیں گے مگر ایسا ممکن نہ ہوا اور سلیکٹرز نے شعیب کی جگہ آصف علی، اعظم خان اور خوشدل شاہ جیسے نوجوان اور نا تجربہ کار کھلاڑی شامل کیے حالانکہ ان کھلاڑیوں کی ماضی میں کوئی خاص پرفارمنسز نہیں ہیں۔
اعظم خان
اگر اعظم خان کی بات کریں تو ان کی سلیکشن پر سوال ان کی پرفارمنس پر نہیں بلکہ ان کی فٹنس کو لیکر زیادہ ہورہا ہے کہ اس فٹنس کا کھلاڑی کیا انٹرنیشل کرکٹ کھیلنے کے لائق ہے؟
یا اگر اعظم خان سابق کرکٹر معین خان کے بیٹے نا ہوتے تو کیا کسی اور کھلاڑی کو ان جیسی فٹنس پر ٹیم میں سلیکٹ کیا جاتا؟ ہم زیادہ دور کیوں جائیں عمر اکمل کی مثال ہمارے سامنے ہے جنھیں فٹنس کی وجہ سے بھی ٹیم سے دور کیا گیا، تو یہ فٹنس لیول پر دوہرا معیار کیوں ؟ یہ کئی سوالات کو جنم دیتا ہے ۔
اعظم خان کی کارکردگی کی بات کریں تو ، انہوں نے صرف 3 انٹرنیشنل ٹی ٹوئنٹی میچز میں پاکستان کی نمائندگی کی اور 85.71 کے اسٹرائیک ریٹ کی مدد سے 6 رنز بنائے، یہ بھی ٹھیک ہے کہ انہیں بیٹنگ کا زیادہ موقع نہیں ملا مگر بات یہ ہے کہ کیا ہم ورلڈکپ جیسے اہم ایونٹ کیلئے اتنے نا تجربہ کار اور فٹنس لیول پر پورا نہ اترنے والے کھلاڑی کو سلیکٹ کرسکتے ہیں؟
خوشدل شاہ
مڈل آرڈر میں شامل کھلاڑ ی خوشدل شاہ کی بات کریں تو وہ بھی کوئی خاص تجربہ نہیں رکھتے اور نہ ہی ماضی میں کوئی شاندار پر فارمنسز ان کے پاس ہیں ۔
خوشدل شاہ نے اب تک 9 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز میں پاکستان کی نمائندگی کی ہے اور انھوں نے 9 میچز میں 109 کے اسٹرائیک ریٹ سے 130 رنز اسکور کیے ہیں جبکہ 36 رنز ناٹ آؤٹ ان کا بہترین اسکور ہے ۔
انہوں نے اپنا آخری میچ فروری میں جنوبی افریقا کے خلاف کھیلا تھا جس کے بعد وہ ٹیم سے باہر ہوگئے تھے۔
آصف علی
آصف علی صرف ٹی ٹوئنٹی لیگز میں اچھا پرفارم کرنے کیلئے کافی مقبول ہیں،ہمیں یاد نہیں پڑتا کہ آخر ی دفعہ انہوں نے کب پاکستان کیلئے شاندار اننگز کھیلی تھی ،آخری نہیں بلکہ ہمیں تو یہ یاد بھی نہیں کہ انہوں نے پہلی دفعہ ایسی اننگز کب کھیلی تھی۔
آصف علی نہ بولنگ کرتے ہیں کہ انہیں آل راؤنڈر کی ہونے کہ وجہ سے ٹیم میں شامل کیا جائے اور نہ ہی اچھی بیٹنگ کرتے ہیں۔
موصوف نے اب تک 29 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز میں پاکستان کی نمائندگی کی اور 123.74 کے اسٹرائک ریٹ سے 344 رنز بنائے اور ہم آخری 10 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز کی بات کریں تو آصف علی نے 9 اننگز میں ٹوٹل 67 رنز اسکور کیے اور اس میں ایک بھی ایسا موقع نہیں تھا کہ وہ ناٹ آؤٹ گئے ہوں۔
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں ان کی سلیکشن پر بھی بڑا سوالیہ نشان ہے۔
شعیب ملک
اگر ان نوجوان اور نا تجربہ کار کھلاڑیوں کے برعکس شعیب ملک کی کارکردگی کی بات کی جائے تو شعیب ملک نے 116 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز میں پاکستان کی نمائندگی کی اور 124.20 کے اسٹرائیک ریٹ اور 31.13 کی اوسط سے 2335 رنز بنائے ہیں جبکہ ان کا بہترین اسکور 75 ہے۔
کچھ سلیکٹرز اور ہمارے متوقع پی سی بی کے چیئر مین رمیز راجہ کا کہنا تھا کہ ان کی عمر زیادہ ہے لیکن اگر ان کی فٹنس اور پرفارمنس کی بات کی جائے تو وہ ہمارے بہت سے نوجوان کھلاڑیوں سے کافی اچھی ہے ۔
ہمیں بھولنا نہیں چاہیے کہ ہمارے مڈل آرڈر کی ماضی میں کیا صورتحال رہی اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہ ورلڈ کپ متحدہ عرب امارات میں ہونے جارہا ہے اور شعیب ملک ایک اچھے اسپین بولنگ آپشن کے طور پر بھی استعمال ہوسکتے تھے۔
شعیب ملک نے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں 48وکٹیں حاصل کی ہوئی ہیں۔
اگر بولنگ کی بات کرین تو وہ تھوڑی بہتر نظر آرہی ہے لیکن متحدہ عرب امارت میں ورلڈ کپ کو دیکھتے ہوئے اسپین ڈپارٹمنٹ میں عثمان قادر کو ریزرو کھلاڑی کے طور پر رکھنا سمجھ سے باہر ہے ۔
ایسی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم ورلڈ کپ کیلئے منتخب کیے گئے قومی اسکواڈ سے مطمئن نہیں ہیں مگر پی سی بی نے ان خبروں کی تردید کی ہے اب اللہ بہتر جانتا ہے کہ یہ ٹیم کپتان کے مشورے سے منتخب کی گئی ہے یا نہیں ۔
اس منتخب ٹیم نے ورلڈ کپ سے قبل نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز بھی کھیلنی ہے ،ان سیریز میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔
محمد وسیم نے صحیح ٹیم سلیکٹ کی ہے یا پھر ناقدین ایک بار پھر انہیں قصور وار ٹھہرائیں گے یہ تو وقت بتائے گا۔
ہم شائقین ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر اپنی ٹیم سے اُمیدیں لگائے بیٹھیں ہیں مگر لگتا ایسا ہی ہے کہ شاید ہر بار کی طرح اس بار بھی یہ کھلاڑی صرف ہمارے دل ہی جیت پائیں گے۔۔۔۔ ٹرافی نہیں۔