Time 12 ستمبر ، 2021
بلاگ

لنڈے کے دیسی لبرل کا تجدید ِعہد

ہمارا قومی المیہ کیا ہے؟ سات دہائیاں گزر گئیں، تقویم کے ہندسے بدلتے ہیں، جمہور کے مقدرات کی تقسیم تبدیل نہیں ہوتی۔ جہاں بانی کے خود ساختہ دعویدار ابھرتے اور ڈوبتے رہتے ہیں، جہاں بینی کی نمود نظر نہیں آتی۔ سرکار دربار کے حاشیہ برداروں کے نام بدل جاتے ہیں، درباری قصیدے کی بندش بدلتی ہے اور نہ سرگم کی ترتیب۔

40برس پہلے اسلامی نظام کی مالا کے دانے شمار کر رہے تھے، آج کل ریاستِ مدینہ کا ورد نوک زبان ہے۔ 30برس قبل سوویت یونین کے سرخ ریچھ کو پچھاڑنے کا جشن منا رہے تھے، ان دنوں اوقیانوس کے پار بیٹھی سپر پاور کی ہزیمت پر نفیریاں پھونک رہے ہیں۔ ایک سوال ہے جو تب بھی تشنہ سماعت تھا اور آج بھی لغت باہر ہے۔ یہ جو ہم نے رنگ رنگ کے تجربے کیے، مہم جوئی کے تاشے بجاتے نکلے، شجاعت کی داستانیں تخلیق کرتے رہے، ہماری سواری باد بہاری جس نگر میں پہنچی، فتح کے نعروں نے آگے بڑھ کے پیشوائی کی، اس رستاخیز کا کل ملا کے حاصل کیا رہا؟

معیشت، علم اور پیداوار کے نقشے پر کل کیا مقام تھا، آج کہاں کھڑے ہیں اور یہ کہ اس دوران دنیا کے اشہب تیز گام نے کن منزلوں کو جا لیا؟ ہم جو بیک وقت مشرق بعید اور جنوبی ایشیا کے نقشے پر رونق دیتے تھے، سمٹ کے مشرق وسطیٰ اور جنوب ایشیا کی وسعتوں میں ایک عمودی پٹی بن کر رہ گئے۔

ہمارے رہنماؤں کی آواز عالمی منظر پر بازگشت دیتی تھی، اب تیسرے درجے کے اہلکاروں سے بار سماعت کے سوالی ہیں۔ افغانستان میں تبدیلی آ گئی مگر ہم نے دونوں ہاتھوں سے توبہ کر رکھی ہے۔ ایک ہی سانس میں خیرسگالی کا دعویٰ بھی ہے اور یہ اقرار بھی کہ ہم طالبان سے کوئی بات منوانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ طالبان ایسے پتھر کے دیوتا ہیں کہ اپنی زمین کو دوسروں کے خلاف استعمال نہ ہونے کی ضمانت بھی دیتے ہیں اور ہم سے فرماتے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان جانے اور آپ جانیں۔ 

ہم دنیا سے ملتمس ہیں کہ طالبان سے تعلق قطع نہ کیا جائے لیکن آدھی کابینہ طالبان کے لئے حرف تبریک لئے ہے اور آدھی کابینہ کو 2640 کلومیٹر طویل سرحد کے پار عدم استحکام اور کالعدم گروہوں کی ممکنہ دراندازی پر تشویش ہے۔ میرِ کارواں ’غلامی کی زنجیریں ٹوٹنے‘ پر شاد ہیں اور افغان خواتین کے بارے میں عالمی تشویش پر حرفِ تضحیک روا رکھتے ہیں۔ مختار صدیقی نے کہا تھا، ’یارو اب شائستہ صحبت کون رہا اس بستی میں‘۔ 

حکومتوں کے اپنے اطوار ہوتے ہیں۔ صحافی، ادیب اور استاد کا کردار ہاورڈ زن (Howard Zinn) نے بیان کر رکھا ہے۔ You can't be neutral on a moving train انحراف کو حب الوطنی کا بہترین درجہ قرار دینے والے اس امریکی دانشور کو پاکستان میں بودوباش کا تجربہ نہیں رہا۔ اگر جمہوری معاشرہ ایک چلتی ٹرین ہے تو آمریت ایسی کشتی ہے جس کا پیندا نکل چکا ہو۔ ہماری جوانی کا قصہ ہے۔ 5جولائی 1987کو ہمارے خود ساختہ صدر جنرل ضیا الحق نے لاہور میں محمد طفیل کی پہلی برسی کے موقع پر ادیبوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’وہ خود ساختہ ترقی پسند دانشوروں کو ملک کی نظریاتی بنیادیں کھوکھلی کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے اور نظریاتی زمین پر کسی قسم کا سیم اور تھور برداشت نہیں کریں گے‘۔ اس پر صحافی استاد وارث میر نے شدید بیماری کی حالت میں ’سیم اور تھور‘ پر اپنا ردعمل قلمبند کر کے 7 جولائی کو اخبار کے سپرد کیا جسے حسب توقع مسترد کر دیا گیا۔ 9جولائی کو وارث میر انتقال کر گئے۔

صحافی کی جان کا تاوان قبول ہوا اور یہ تحریر 15جولائی کو شائع کی گئی۔ ’طاقت‘ کے جھوٹ اور ’انکار‘ کے سچ میں بس یہی ایک سانس یا کچھ دہائیوں کا فاصلہ ہوتا ہے۔ آج کل کچھ عقل مند 40برس پہلے کی غلطیوں کا اعتراف کر رہے ہیں۔ گویا آج کی غلطی کی نشاندہی کا وقت آ گیا ہے۔ ہماری مغربی سرحد پر تعینات محافظوں پر تواتر سے حملے کیے جا رہے ہیں۔ اس دہشت گردی کے خلاف پارلیمنٹ سے آواز آنی چاہیے تھی لیکن پارلیمنٹ خاموش ہے۔ 

ہوا کے دوش پر اڑتا ایک ہدایت نامہ پاکستانی صحافیوں کے نام بھی موصول ہوا ہے۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری کو اس پر ردعمل دینا چاہیے تھا لیکن وہ میڈیا کی ڈویلپمنٹ پر اتھارٹی قائم کرنے میں مصروف ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی کے حملہ آور اسی اصول کی بنیاد پر ہمارے ملک کے لاگو ہو رہے ہیں جس کی مدد سے کابل پر قبضہ کیا گیا ہے یعنی بندوق کی طاقت۔ اپنے وطن سے محبت کا تقاضا ہے کہ بندوق کے بل پر ہتھیائے گئے اقتدار سے انکار کیا جائے۔ اس جھوٹ کو بے نقاب کرنا چاہیے کہ ساڑھے تین کروڑ افغانوں کی قسمت پر غاصبانہ قبضے کا کوئی مذہبی جواز موجود ہے۔ کل تک روس سرخ کافر تھا اور آج اسی روس سے معانقہ کر کے ماضی کے ’اہل کتاب مغرب‘ سے مناقشے کا آوازہ لگایا جا رہا ہے۔ 

جدید دنیا میں اقتدار کا ایک ہی جواز قابل قبول ہے، تمام شہریوں کی عقیدے، نسل یا جنس کی بنا پر کسی امتیاز کے بغیر فیصلہ سازی میں شرکت یعنی جمہوریت۔ اگر عقیدے کی آزادی فرد کے ضمیر کی آواز ہے تو اسے کسی پر نافذ نہیں کیا جا سکتا۔

افغان طالبان سمیت دنیا کے کسی بھی خطے میں مذہب کے نام پر سیاست تین مسلمہ اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ (1)انسانی مساوات، (2) علم کا متحرک تصور اور (3) پیداواری معیشت۔ پاکستان کی قومی ریاست ان اصولوں کی بنیاد ہی پر قائم ہوئی تھی اور ان اصولوں کی روشنی ہی میں آگے بڑھ سکتی ہے۔ مقام تشکر ہے کہ ’لنڈے کے دیسی لبرل‘ اور ’مغرب زدہ‘ پاکستانی شہری دسمبر 1979میں بھی پاکستان کی جمہوری اساس پر قائم رہے، جولائی 1987 میں بھی اس کی قیمت ادا کی، نائن الیون سے پہلے اور بعد میں بھی اپنے موقف سے دست بردار نہیں ہوئے اور آج بھی دستور کی شق 5کی روشنی میں مملکت پاکستان کے وفادار اور دستور پاکستان کے تابع رہیں گے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔