بلاگ
Time 13 ستمبر ، 2021

ڈوبنے والے ترے ہاتھ سے ساحل تو گیا!

پاکستان کی مغربی سرحد کے اس پار افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہو چکی ہے جبکہ پاکستان میں مہنگائی ، بے روزگاری اور غربت میں تیزی سے ہونے والے اضافے کے سبب سیاسی بے چینی اپنے ’’ کلائمیکس ‘‘ یعنی انتہا کی طرف بڑھ رہی ہے ۔

 ملک کے داخلی حالات ایسے ہو گئے ہیں ، جن کے بارے میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ان حالات میں انتہا پسندی میں اضافہ ہو سکتا ہے اور انتہا پسند قوتوں کا اثرو رسوخ بڑھ سکتا ہے ۔ بقول محترمہ بے نظیر بھٹو غربت ، مایوسی اور معاشی عدم مساوات کے ماحول میں انتہا پسندی کو فروغ حاصل ہوتا ہے ۔ انتہائی تشویش ناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کو یہ احساس نہیں ہے کہ حالات کیا رخ اختیار کر رہے ہیں۔

ایک طرف حکومت اور اپوزیشن کے مابین ایک دوسرے پر الزامات لگانے کا مقابلہ جاری ہے تو دوسری طرف اپوزیشن کی جماعتیں آپس میں دست و گریباں ہیں ۔ کسی کو یہ احساس ہی نہیں ہے کہ پاکستان کی آبادی کی اکثریت خط غربت سے نیچے گر گئی ہے اور اس کےلئے زندگی عذاب بن گئی ہے ۔

 مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں نہ صرف حکومت مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہے بلکہ اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں بھی اس مسئلے پر بات کرنے کی بجائے عوام کو نان ایشوز میں الجھائے رکھتی ہیں ۔ کسی کو پتہ ہی نہیں چلا کہ بجلی کے تقسیم کار ادارے پاکستان کے غریب عوام کو لوٹ رہے ہیں ۔ انہیں حکومت یا کسی ریاستی ادارے نے نہیں روکا ۔ پاکستان کی اکثریتی آبادی کے ذرائع آمدن کا بڑا حصہ بجلی کے بلوں میں چلا جاتا ہے اور ہماری سیاسی جماعتیں بے حسی کا شکار ہیں۔

روپے کی مسلسل بے قدری لوگوں کے منہ سے نوالے چھین رہی ہے اور بڑی آبادی کو دو وقت کی روٹی ملنا مشکل ہو گیا ہے ۔ معیاری تعلیم اور ضروری علاج کی سہولتوں کے دروازے عام آدمی پر بند ہو چکے ہیں ۔ سرکاری اسکولوں میں تعلیم نہیں ہوتی اور سرکاری اسپتالوں میں وہ علاج نہیں ہوتا ، جس کی ضرورت ہوتی ہے ۔

 نوجوانوں پر روزگار کے دروازے بند ہو چکے ہیں ۔ خیراتی اداروں نے بھوکے لوگوں کے لئے بڑے شہروں میں تو دسترخوان لگا دیئے ہیں لیکن بڑی دیہی آبادی ان خیراتی کھانوں سے محروم ہے ۔ شہروں میں بھی یہ خیراتی ادارے سارے بھوکے لوگوں کو کھانا نہیں کھلا سکتے ۔ تحریک انصاف کی حکومت نے پناہ گاہیں تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن بے گھر لوگوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ دکھاوے کی چند پناہ گاہیں ان کی ضرورت پوری نہیں کر سکتیں ۔ اس ملک میں بھکاریوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ شہروں اور دیہات کے ساتھ ساتھ جنگلوں اور پہاڑوں میں ویران جگہوں پر بھی کھڑے ہو جائیں تو وہاں بھکاری پہنچ جاتے ہیں ۔

غربت ، بھوک اور افلاس نے مایوسی کو جنم دیا ہے اور مایوسی نے اقدار اور خاندانی رشتوں کا خاتمہ کر دیا ہے ۔ سماج اپنی سیاسی اور اخلاقی سمت کھو چکا ہے ۔ روٹی کےلئے لوگ کوئی بھی کام کرنے کے لئے تیار ہیں ، چاہے وہ غیر اخلاقی ہی کیوں نہ ہو ۔ ان معاشی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ غریب لوگوں کے لئے پولیس قہر خداوندی بنی ہوئی ہے ۔ حکومتی اور ریاستی ادارے کہیں بھی لوگوں کو ریلیف یا انصاف مہیا نہیں کرتے ۔ روٹی کے ساتھ ساتھ لوگوں کو ظلم و ناانصافی سے تحفظ کی بھی ضرورت ہے ۔

اس وقت عوام کی نمائندہ ہونے کی دعوے دار سیاسی قوتیں صورت حال کا ادراک نہیں کر ر ہیں۔ یہاں محترمہ بے نظیر بھٹو کی کتاب ’’مفاہمت‘‘ میں سے ایک اقتباس پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں ، جس میں محترمہ نے بتایا کہ افغانستان میں طالبان کی مقبولیت میں اضافہ کیسے ہوا ۔ 

وہ لکھتی ہیں کہ ’’ الرشید ‘‘ نامی دہشت گردی کے ایک نیٹ ورک نے افغانستان کے طالبانی علاقوں میں جابجا تنور اور اوون بیکریاں قائم کیں ۔ ہر روز مائیں اور باپ ان بیکریوں پر آکر اپنے گھرانوں کے لئے مختص نان لے کر جاتے ۔ گھر کے ہر فرد کے لئے تین نان تھے۔ یہ خاندان بھوکوں مر رہے تھے اور اب ان کے پیٹ بھر رہے تھے ۔ افغانستان میں اس نیٹ ورک کی طرف سے قائم کردہ ہر تنور یا بیکری پر اسامہ بن لادن کی تصویر آویزاں ہوتی تھی۔ ماں باپ جب اس روٹی کا راشن حاصل کرتے تو کریڈٹ اسامہ بن لادن کو جاتا ۔ اس طرح طالبان اور القاعدہ کے لئے پورے افغانستان میں دوستانہ جذبات بڑی تیزی سے پھیل گئے۔

محترمہ آگے جا کر لکھتی ہیں کہ اگر مسلم دنیا میں یہ کام حکومتیں اور سیاسی قوتیں کریں اور مغرب کے دولت مند ممالک ان کی مدد کریں تو دہشت گردی اور انتہا پسندی کو روکا جا سکتا ہے ۔ انہوں نے لوگوں کو دو وقت کی روٹی ، ضروری علاج اور تعلیم کی فراہمی کا سادہ سا منصوبہ پیش کیا ۔ محترمہ کے اس منصوبے پر کہیں بھی کام نہیں ہوا اور اب ان کے ملک کے اکثریتی عوام بہت مشکل زندگی گزار رہے ہیں ۔ پاکستان کے موجودہ خیراتی ادارے بھی اس منصوبے پر مکمل عمل نہیں کر سکتے ۔ اب یوں لگتا ہے کہ اس جیسے نیٹ ورک غیر محسوس طریقے سے کام کریں گے ۔

ان کے لئے فضا سازگار ہے ۔ اس جیسے نیٹ ورکس کو مالی وسائل بھی کہاں سے مہیا ہوتے رہے اور اب کہاں سے مہیاہوں گے ؟ اس پر فیٹف (FATF ) والے بھی سوال نہیں کریں گے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے کہا تھا کہ شاید مغرب مسلم دنیا میں انتہا پسندوں کی حکمرانی چاہتا ہے تاکہ اس کا عالمی ایجنڈا پورا ہو ۔ افغانستان کے بعد اب پاکستان میں غربت ، بھوک ، بے روزگاری ، مہنگائی ، ظلم و انصافی نے اس ایجنڈے پر عمل درآمد کےلئے حالات سازگار بنا دیئے ہیں ۔ عبدالحمید عدم نے شاید ہماری سیاسی جماعتوں کے لئے یہ شعر کہا ہو گا

بڑھ کے طوفان کو آغوش میں لے لے اپنی

ڈوبنے والے ترے ہاتھ سے ساحل تو گیا


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔