بلاگ
Time 16 ستمبر ، 2021

اﷲ خیر کرے!

نئے تعلیمی نصاب سے ایک طبقہ کو اصل تکلیف کیا ہے خود ہی سن لیجیے۔ مختلف ٹی وی ٹاک شوز میں اس نصاب پر اعتراض کرنے والوں کے کچھ اعتراضات میں قارئین کے سامنے جوں کے توں پیش کر رہا ہوں۔ سنیے اور فیصلہ خود کیجیے:

ایک ٹی وی ٹاک شو میں پاکستان کی مختلف جامعات میں پڑھانے والے پرویز ہودبھائی کہتے ہیں: ’’ ان (بچوں) کو اسلامیات میں پہلے صرف ناظرہ قرآن پڑھایا جاتا تھا اب ناظرہ کے ساتھ معنی بھی یاد رکھنا ہوں گے، حدیثیں بھی سیکھنی ہوں گی، دعائیں بھی سیکھنی ہوں گی۔

کیا کچھ سیکھنا ہو گا، دماغ کے اندر اتنی گنجائش ہوتی ہی نہیں، اور اب ان کو عربی بھی سیکھنی پڑے گی۔

اینکر نے پوچھا اس میں مسئلہ کیا ہے تو ہودبھائی نے جواب دیا بہت پرابلم ہے بہت پرابلم ہے کیوں کہ آپ نے اُس بچے کا جو چھوٹا سا دماغ ہے اُس کو صرف ایک سمت لگایا ہوا ہے، اُس کے دماغ کو آپ حرکت نہیں دے رہے، اُس میں کوئی جنبش نہیں پیدا کر رہے، آپ اُس سے کہہ رہے ہیں کہ جو اچھی طرح سے رٹ سکتے ہو رٹ لو، جو رٹو طوطا ہے اُسے بڑے نمبر ملیں گے، باقی جو بچارا اپنے دماغ سے سوچنا چاہتا ہے وہ تو کہیں کا نہیں رہتا اس میں۔‘‘

اسی شو میں ہودبھائی نے مزید کہا: ’’میں نے 1973 سے (قائد اعظم یونیورسٹی میں)پڑھانا شروع کیا، یعنی 47 سال پہلے وہاں ایک لڑکی بھی بمشکل برقع میں نظر آتی تھی، اب تو حجاب برقع عام ہو گیا، نارمل لڑکی تو اب شاذو نادر ہی آپ کو وہاں نظر آئے گی اور جب وہ کلاس میں بیٹھتی ہیں برقع میں، حجاب میں لپٹی ہوئیں تو اُن کی جو شمولیت ہے کلاس میں وہ بہت گھٹ جاتی ہے، یہاں تک کے پتا ہی نہیں چلتا کہ وہ کلاس میں ہیں بھی کہ نہیں۔ پہلے تو ایسے ہوتا تھا کہ لڑکیاں بہت زیادہ سوال تو نہیں کرتی تھیں لیکن کبھی کبھی سوال ہو جاتا تھا جس پر خوشی ہوتی تھی۔‘‘

یہاں میں یہ واضح کرتا چلوں کہ جس بوجھ کا ڈاکٹر ہودبھائی نے ذکر کیا وہ درست نہیں اور حقیقت میں پہلی سے پانچویں جماعت تک مسلمان بچوں کو ناظرہ پڑھایا جائے گا جبکہ چھٹی سے بارہویں کلاس تک قرآن مجید کا ترجمہ پڑھایا جائے گا، ترجمہ کو یاد کرنے والی بات بھی درست نہیں۔

اب آگے چلئے اور ایک خاتون عائشہ رزاق( جو اپنے آپ کو تعلیم کی ایکسپرٹ کہتی ہیں اور جنہوں نے نصاب میں ’’نیوٹن کو دوپٹہ‘‘ پہنانے والی بات کی تھی جس کو ایم ڈی پنجاب ٹکسٹ بک بورڈ نے میرے رابطہ کرنے پر سفید جھوٹ کہا) کیا کہتی ہیں جو نصاب تیار کیا گیا اُس میں ہماری ساری سیاسی جماعتیں complicit (اس کا اردو ترجمہ پڑھ لیں تو اندازہ ہو گا خاتون کیا کہنا چاہ رہی ہیں ) ہیں۔

وہ کہتی ہیں: ’’دیکھیں یہ جو ناظرہ قرآن (لازمی پڑھانے) کا قانون آیا وہ 2017 میں ن لیگ کی حکومت کے دوران آیا، پنجاب کے اندر علماء بورڈ کا جو اتنا بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے، علماء ہر چیز کے اندر کیوں شامل ہیں، ہر بک کو کیوں ریویو کر رہے ہیں، یہ PMLQ کی مہربانی ہے، جو وہ (پنجاب میں) عربی پڑھانے کے اوپر بل لے کر آئے ہیں وہ ن لیگ کی مہربانی ہے، جس کی وجہ سے آپ کو Finality of Prophethoodکو اپنی ردو میں۔

انگلش میں اور باقی مضامین میں شامل کرنا پڑا ہے، پی ٹی آئی کے علی محمد خان کی مہربانی ہے، مسئلہ یہ ہے کہ مذہب کو ہم نے استعمال کر لیا ہے لوگوں کو موبلائزکرنے کے لئے سیاست میں، جس کے نتیجے میں ہماری کتابیں اب اس قسم کی بن گئی ہیں‘‘۔

نیوٹن کو دوپٹہ پہنانے والی عائشہ رزاق نے کہا کہ علماء بورڈ ہر کتاب کو ریویو کرتا ہے یہ درست بات نہیں بلکہ اس بورڈ کا مقصد صرف مذہبی مواد کو دیکھنا ہوتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ وزارت تعلیم نے انہی خاتون کو وزارت میں ٹیکنکل ایڈوائزر رکھ لیا ہے۔ا ﷲ خیر کرے!

اب ایک اور تعلیم کے ماہر اے ایچ نیر کو سنیے وہ کیا کہتے ہیں: ’’انگریزی زبان کی کتاب میں ایک سبق ہے چوتھی کلاس میں جو اسلامی تاریخ سے ہے اُس میں جو درود وسلام بھیجا جاتا ہے۔

ایک تو یہ کہتے ہیں کہ پورا درود بھیجیں۔ ایک ہی سبق کے اندر یہ درود 73 مرتبہ آتا ہے اور اس کے علاوہ رضی اللہ تعالی عنہ صحابہ کرام کے لئے آتا ہے اور انگریزی کی کتاب میں عربی میں لکھا ہوا ہے۔

ایک اور سبق ہے تیسری جماعت یا دوسری جماعت کی کتاب میں 32 مرتبہ یہ چیزیں آتی ہیں۔ اب بھلا بتائیے یہ انکلوسو ایجوکیشن تو نہیں ہوئی ناں، یہ ان کی اپنی دینی (سوچ) کی تسلی تو ہو گئی لیکن یہ ہمارے آئین کی خلاف ورزی ہو گئی‘‘۔

یہاں میں ڈاکٹر صاحب سے صرف یہ گزارش کروں گا کہ آئین کو پڑھ لیں خاص طور پر آئین کے آڑٹیکل 31 کو پڑھیں تو اُنہیں پتا چل جائے گا کہ جو وہ کہہ رہے ہیں ،سراسر غلط ہے۔

بہرحال میں ان لبرل ماہرین تعلیم اور اُن کے خیالات کو اس کالم میں پیش کر رہا ہوں اور فیصلہ قارئین کر لیں کہ نئے قومی نصاب کی مخالفت کی اصل وجہ کیا ہے، کہاں سچ اور جھوٹ کو گڈ مڈ کیا جاتا ہے اور اصل تکلیف کس سے ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔