بدلا ہوا نواز شریف!

یہ تو وہ نواز شریف نہیں جسے میں نے 1985میں بطور وزیراعلیٰ پنجاب اور پھر تین دفعہ بطور وزیراعظم پاکستان دیکھا تھا، یہ وہ نواز شریف بھی نہیں جسے 1999میں وزارتِ عظمیٰ سے ہٹا کر پہلے پابندِ سلاسل کیا گیا اور پھر سعودی عرب بھجوا دیا گیا، یقیناً یہ 2007 والا نواز شریف بھی نہیں جس نے محترمہ و مرحومہ بینظیر بھٹو کے ساتھ مل کر میثاقِ جمہوریت سائن کیا تھا ۔

 یہ 2017والا نواز شریف ہے جس نے مزاحمتی سیاست کا ارادہ کیا اور ابھی تک اپنے بیانیے میں تبدیلی کی خواہش سے دور ہے۔ یہ وہ نواز شریف ہے جو Now or Never کی جنگ لڑنے کا مصمّم ارادہ کر چکا اور لغزش پا بھی نہیں ہے، یہ وہ تجزیہ تھا جو گزشتہ ہفتے 13ستمبر کی سہ پہر کو لندن میں حسن نواز کے دفتر سے باہر آتے ہوئے میرے ذہن میں پنپ رہا تھا، جہاں میاں نواز شریف نے برطانیہ میں مقیم پاکستانی صحافیوں سے ایک طویل نشست کی، اِس نشست میں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اُن کی بھرپور مدلل معاونت کی تھی۔

سوال و جواب کے دوران ایک لمحے کیلئے بھی نہیں لگا کہ نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز کے مابین کسی قسم کی Good cop Bad copکی پالیسی کار فرما ہے حالانکہ ان کے سیاسی مخالفین ہمہ وقت ن سے ش اور ش سے م نکلنے کے بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں۔ یوں لگا کہ میاں نواز شریف عمر کے اِس حصہ میں بھی لمبی تان کر سو نہیں رہے بلکہ سیاسی قیلولہ میں ہیں اور اس کے بعد خود کو ایک اونچی سیاسی اُڑان کے لئے تیار کر رہے ہیں اور اگر چُپ ہیں تو بقول اختر شمار:

؀میں تو اس واسطے چُپ ہوں کہ تماشا نہ بنے

تُو سمجھتا ہے مجھے تجھ سے گلہ کچھ بھی نہیں

پیر 13ستمبر 2021کو خاصے عرصہ کے بعد اس طرح سے تفصیلاً ملاقات میں صحافیوں نے بڑے کھلے انداز میں پاکستان کی حالیہ سیاسی اور بدلتی ہوئی علاقائی صورتحال پر گفتگو کی۔ زیادہ تر معاملات تو وہی تھے جن پر گاہے گاہے نواز شریف اور ان کی جماعت کے رہنماؤں کے بیانات میڈیا میں آتے رہتے ہیں لیکن کچھ نئی باتیں بھی صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے نواز شریف نے کیں۔

مثلاً انہوں نے کہا کہ ضروری نہیں پاکستان افغانستان کے ہر معاملہ میں دخل دے۔ (حالانکہ اس وقت حکومت پاکستان کا مؤقف ہے کہ وہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کر رہی) لیکن یوں لگا کہ میاں نواز شریف حکومت کی اس بات سے متفق نہیں ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم انہیں کیوں بتا رہے ہیں کہ انہیں کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں، انہوں نے یہ بھی کہا کہ سابق افغان صدور حامد کرزئی اور اشرف غنی بھی پاکستان سے خوش کیوں نہ تھے، ہم نے یہ بھی سوچنا ہے حالانکہ یہ دونوں صدور انڈیا سے تو خوش تھے۔

میاں صاحب نے ایک اور ’تاریخی بحث‘ پر بھی اپنا کلیئر موقف دیتے ہوئے کہا کہ شیخ مجیب الرحمٰن غدار تھا اور نہ ہی اس کے چھ نکات ملک دشمنی پر مبنی تھے بلکہ ہم نے خود (مغربی پاکستان) بنگالیوں کو الگ ہونے پر مجبور کیا۔ انہوں نے صحافیوں اور صحافتی اداروں پر پابندیوں اور حکومت کی طرف سے نیا آرڈیننس لائے جانے پر بھی شدید تنقید کرتے ہوئے سول سوسائٹی اور صحافیوں سمیت دیگر ملکی اداروں کو موجودہ نظام کیخلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ترغیب یا اپیل بھی کی۔

صحافیوں کے ساتھ حالیہ ملاقات میں میاں نواز شریف کے دائیں بائیں اُن کے دیرینہ ساتھی اور مسلم لیگ برطانیہ کے صدر اور سینیٹ الیکشن میں ناکام ہونے والے زبیر گل، جج ارشد ملک کی وڈیو سے شہرت پانے والے ناصر بٹ بھی موجود تھے اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی جو میاں صاحب کے رائٹ ہینڈ بھی ہیں۔ انہوں نے صرف پاکستان میں چند سال پہلے اور حالیہ معاشی حالات پر سیر حاصل گفتگو اور معاشی صورتحال کی بہتری کے لئے تجاویز دیں بلکہ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ مسلم لیگ تو چاہتی ہے کہ پاکستان میں فوری عام انتخابات کروا دیے جائیں کیونکہ اب اس سے زیادہ ابتر حالات اور کیا ہوں گے!

اس ملاقات میں مجھے ایک لمحہ کیلئے بھی یوں نہیں لگا کہ میاں نواز شریف کی حالیہ خاموشی کے پس پردہ میڈیا پر ان کے بیانات یا وڈیو پر لگنے والی پابندی کے علاوہ بھی کچھ اور ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ یہ خاموشی مواقف موقع اور حالات کے انتظار میں ہے۔

تین دفعہ وزارت عظمیٰ کی بھول بھلیوں اور غلام گردشوں سے نکل کر میاں نواز شریف اپنی سیاسی زندگی کے اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں حالیہ پاکستانی سیاست میں ان کے ہم پلہ کوئی نہیں شاید اسی لئے اب وہ کسی قسم کے مفاہمتی داؤ پیچ کی بجائے مزاحمتی ایجنڈے کو تقویت د ے رہے ہیں۔ 

شاید انہیں قوی امید ہے کہ اُن کی مزاحمت کامیاب ہوگی اور وہ ’ووٹ کو عزت دو‘ والے اپنے نعرے کو حقیقت کا رنگ دینے یا دلوانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ایک اور بات جو اس ملاقات کے بعد مجھے شدت سے محسوس ہوئی کہ میاں نواز شریف کو حکمران جماعت یا ان کے دیگر ناقدین خواہ کچھ بھی کہتے رہیں، وہ مکمل طور پر مطمئن ہیں کہ پاکستان کے عوام بھی ان کے بیانیے کے ساتھ اور بین الاقوامی سطح پر جمہوری قوتیں بھی ان کی حمایتی ہیں اور آخر کار وہ وقت آئے گا جب ان کے اسی نقطۂ نظر کی جیت ہوگی جو 1999یا کلی طور پر 2017میں انہوں نے پوری شدت کے ساتھ اپنایا اور جس پر وہ سختی کیساتھ قائم ہیں اور آئندہ بھی اس پر ’پہرہ‘ دینا چاہتے ہیں کیونکہ وہ اب سمجھتے ہیں کہ اپنی حکومت یا اقتدار بچانے کیلئے کی جانے والی مفاہمت بےفائدہ اور نقصان دہ ہے اور اب انتخابات میں شفافیت ہی وہ واحد حل ہے جس کے بعد تمام ملکی اداروں میں بھی عدل و انصاف قائم ہو سکے گا۔ یقیناً پاکستان کا ہر جمہوریت پسند ادارہ اور عوام اسی نقطہ نظر کے حامی ہیں بشرطیکہ پاکستان کی تمام سیاسی قوتیں بھی یہی رویہ اپنانے کا تہیہ کر لیں۔ 

میاں نواز شریف نے امتدادِ زمانہ اور 40 سال سیاست میں خامہ فرسائی کے بعد جہاں بہت سے سیاسی اسباق حاصل کئے ہیں وہاں ایک سبق میل ملاقات کے ضمن میں بھی حاصل کیا ہے جو انہوں نے یقینی طور پر عمران خان سے لیا ہے جس کا تذکرہ اظہارِ تفنن یہاں ضروری ہے۔ وہ یہ کہ ماضی کی اچھی روایات کی بجائے ظہرانوں، عصرانوں اور عشائیوں سے اجتناب کرتے ہوئے چائے پانی پر ہی اکتفا کیا جائے!


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔