Time 23 ستمبر ، 2021
بلاگ

ان کی خون کی پیاس کب بجھے گی؟

یہاں ایک طبقہ بےقرار ہے کہ جیسے تیسے ہو طالبان کی افغانستان میں حکومت کو ناکام ثابت کیا جائے، طالبان کے متعلق کوئی ٹھوس بات ہو یا نہ ہو اسکینڈل بنائے جائیں اور یہ ثابت کیا جائے کہ طالبان نہ صرف افغانستان بلکہ دنیا بھر کے لئے ایک خطرہ ہیں، عورتوں کے لئے تو وہاں حقوق نام کی کوئی چیز ہو ہی نہیں سکتی۔ 

اس پروپیگنڈہ کے لئے زیادہ تر عورت کا نام ہی لیا جاتا ہے۔ مجھے لگتا ہے جیسے یہ طبقہ بےقرار ہو کہ کس طرح دنیا کو ایک بار پھر تیار کیا جائے کہ وہ افغانستان پر حملہ کر دے تاکہ طالبان کی حکومت کا خاتمہ ہو جائے۔ ایک بار پھر طیارے بمباری کریں، ڈرون حملے ہوں، ڈیزی کٹرز اور دوسرا جدید اسلحہ افغانستان میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لئے استعمال ہو۔

 کچھ لوگ اس طبقہ سے تعلق رکھنے والے لبرلز کے لئے خونی لبرلز کے الفاظ استعمال کرتے ہیں جس سے میں نے ہمیشہ گریز کیا لیکن یقین جانیں اُن کی نیت یہ ہو یا نہ ہو، یہ طبقہ ایسے حالات ضرور دوبارہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ افغانستان میں امن قائم نہ ہو سکے، وہاں خون خرابہ ہو، بےشک پاکستان دشمن کرزئی اور اشرف غنی جیسے کٹھ پتلی، جو بیرونی حملہ آواروں کے ساتھ مل کر اپنے ہی ملک میں رہنے ہی لوگوں پر بمباری کرواتے رہے، وہ دوبارہ آ جائیں لیکن طالبان کو کسی صورت افغانستان پر حکمرانی نہیں کرنی چاہئے۔ 

دوسروں کو کہتے ہیں کہ افغانستان کے مسئلہ پر کیوں بولتے ہیں اور کیوں دلچسپی لیتے ہیں مگرخود ہر قسم کا جھوٹ سچ طالبان حکومت کو بدنام کرنے اور دنیا کو اُن پر غصہ دلوانے کے لئے خوب پھیلا رہے ہیں۔ طالبان کے متعلق ہماری حکومت کی پالیسی بہت متوازن ہے اور ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ دنیا طالبان کو حکمرانی کا موقع دے، اُن کی مدد کرے تاکہ افغانستان میں دیر پا امن کو یقینی بنایا جا سکے۔ 

مخصوص طبقہ کے افراد اب بھی اپنے طعنوں کا شکار حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو ہی بنا رہے ہیں جس کہ وجہ صرف ہماری افغان پالیسی ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ بس جو بھی ہو، پاکستان کی افغانستان میں حکمرانی کرنے والے طالبان کے متعلق ایسی پالیسی ہو کہ وہ ہمارے اور ہم اُن کے دشمن بن جائیں۔

 جبکہ ہماری حکومت کی پالیسی بہترین ہے اور اس کی کوشش ہے کہ طالبان خواتین کو پردہ کے ساتھ تعلیم اور ملازمت کی اجازت دیں جس بارے میں طالبان نے اپنا وعدہ ایک بار پھر دوہرا بھی دیا ہے۔ ساتھ ساتھ پاکستان یہ بھی چاہتا ہے کہ طالبان اپنی حکومت میں اپنے علاوہ افغانستان میں رہنے والی دوسری قومیتوں مثلاً ازبک، تاجک وغیرہ کو بھی شامل کریں تاکہ وہاں ایک Inclusive حکومت کا قیام ہو سکے۔ 

گزشتہ روز طالبان نے اپنی حکومت میں کئی اور افراد کو شامل بھی کیا جس میں تاجک، ازبک، ڈاکٹرز انجینئرز وغیرہ بھی موجود ہیں۔ اب اگر کسی کی یہ خواہش ہو کہ بھگوڑے اشرف غنی کو بلا کر اُسے بھی حکومت میں شامل کر لیا جائے اور اسی طرح کرزئی وغیرہ کو بھی حکومت میں بٹھا دیں تو ایسا ممکن نہیں۔

 یعنی جو طالبان کے ساتھ گزشتہ 20سال امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کے زور پر لڑتے رہے اُنہیں اقتدار میں طالبان اپنے ساتھ بٹھا لیں، ایسا کہیں نہیں ہوتا۔ طالبان نے اپنے زور بازو سے امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کو 20سال کی لڑائی کے بعد شکست دی، وہ اتنے بےقوف نہیں کہ امریکہ، بھارت وغیرہ کے ایجنٹوں کے سپرد حکومتی ذمہ داریاں کر دیں اور پھر سازشوں کا ایک رستہ کھول دیں کہ طالبان کی حکومت چل ہی نہ سکے۔ یہاں مخصوص طبقہ کی یہ بھی خواہش ہے کہ افغان عورتوں کو مغرب والی عورت جیسی آزادی دی جائے، اُنہیں پردہ کرنے کا نہ کہا جائے، وہ جو چاہیں اُنہیں کرنے کی آزادی ہونی چاہئے، یہ بات نہ تو طالبان مانیں گے اور نہ ہی اُنہیں ماننی چاہئے۔ 

افغانستان کی عورتوں کا ہمدرد یہ طبقہ افغانستان پر جب امریکہ نے حملہ کیا اور لاکھوں افراد بشمول خواتین اور بچوں کو شہید کیا اُس وقت کیوں ایک لفظ تک نہیں بولتا تھا؟ اس طبقہ کا اصل مسئلہ اسلام اور اسلامی نظام سے ہے۔ یہاں میں مختصراً لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز سے متعلق حالیہ تنازعہ کا ذکر کروں گا۔ 

ایک تو میری مولانا سے گزارش ہے کہ مہربانی کرکے قانون کو ہاتھ میں نہ لیں اور ایک ایسے ماضی کو مت دہرائیں کہ ایک طبقہ دوبارہ ایسے حالات پیدا کر دے کہ ہمیں ایک بار پھر وہ کچھ دیکھنا پڑے جو بہت بڑا سانحہ تھا۔ میں یہاں میڈیا سے بھی گزارش کروں گا کہ خدارا ذمہ دارای کا احساس کریں اور کیوں ایک ایسے واقعہ کو بلاوجہ اچھال رہے ہیں جس کے نتائج سنگین ہو سکتے ہیں۔ 

ہمیں کیا یاد نہیں کہ پرویز مشرف کے دور میں میڈیا میں موجود ایک طبقے نے اُنہیں ’’مارو مارو‘‘ کہہ کہہ کر لال مسجد کا آپریشن کروا دیا اور جب لال مسجد کا سانحہ ہوا تو یہی طبقہ ’’مار دیا مار دیا‘‘ کی دہائی دینے والوں کے ساتھ مل گیا۔ نجانے کیوں یہ طبقہ افغانستان اور پاکستان میں خون خرابہ چاہتا ہے۔ ان کی خون خرابہ دیکھنے کی پیاس کب اور کیسے ختم ہو گی؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔