Time 23 ستمبر ، 2021
بلاگ

خاتونِ اول کے لئے ایک کالم

جس معاشرہ میں ہوش مندوں کا پرسان حال کوئی نہیں، وہاں وزیر اعظم کی اہلیہ کا ذہنی مریضوں کے ہسپتال کے دورہ کی خبر پڑھ کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ اس خوب صورت واقعہ کو گزرے چند روز ہی ہوئے ہیں۔

 اس دورے کے نتائج کیا نکلے یا نکلیں گے؟ میں کچھ نہیں جانتا لیکن اس موضوع پر چند باتیں ضرور ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں ۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ (PIMH) کی بریف ہسٹری حاضر ہے۔

یہ ہسپتال تاج برطانیہ نے 1908 میں متعارف کرایا جس کو اس وقت "LUNATIC ASYLUM"کا نام دیا گیا ۔ اس وقت اس کا کل رقبہ 172 ایکڑ تھا جو بتدریج گھٹتے گھٹتے صرف 52 ایکڑ رہ گیا لیکن خیر ہے کیونکہ پاکستان دو لخت ہونے کےبعد اگر ملک کا رقبہ کئی گنا کم ہوسکتا ہےتو بھلا ’’پاگل خانہ‘‘ کس شمارقطار میں جو آج "PIMH" کہلاتا ہے کیونکہ ہم نام بدلنے کے بادشاہ اور کام کرنے میں پیادے بھی نہیں ہیں۔

کام کے حوالہ سے ہم ’’کام دکھانے‘‘ پر یقین رکھتے ہیں۔ قائد نے کہا تھا ’’کام، کام اور صرف کام‘‘ . . . . . ہم نے سمجھا ’’حرام، حرام اور صرف حرام‘‘۔ نہ عدل نہ احسان نہ صلۂ رحمی۔

ہسپتال میں گنجائش تو 1400 مریضوں کی ہے لیکن اس وقت صرف 1000 مریض زیر علاج ہیں جنہیں ’’زیر عتاب‘‘ کہیں تو بہتر ہوگا کیونکہ حالات صحیح معنوں میں دگرگوں ہیں۔

وارڈز بدبو دار اور خستہ حال ہیں۔

مخصوص تعداد کے مریضوں کو جانوروں کی طرح بند رکھا جاتا ہے اور "DISTURBED" قرار دیتے ہوئے یہ سلوک روا رکھا جاتا ہے۔

شام گئے اور رات بھر کے لئے 100 مریضوں کے لئے صرف ایک وارڈ اٹینڈنٹ موجود ہوتا ہے۔

نفسیاتی نرسنگ کیئر نہ ہونے کے برابر ہے۔

جنرل نرسوں کی تعداد شرمناک حد تک کم ہے اور وہ بھی زیادہ تر اپنے کمروں تک محدود رہنے کو ترجیح دیتی ہیں اور مریضوں کے دوا دارو کے لئے بھی ایک اٹینڈنٹ ہے جو شام اور رات کو 100 مریضوں کی دیکھ بھال کا حق ادا نہیں کرسکتا اور اس کی اہلیت و قابلیت بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اہم ترین سوال یہ ہے کہ کتنے فیصد مریضوں کو دوا نصیب ہوتی ہے۔

شام اور رات کو صرف اور صرف ایک ڈاکٹر ڈیوٹی پر ہوتا ہے جس نے 1000 مریضوں کی ایمرجنسی ضروریات پوری کرنا ہوتی ہیں جو ممکن ہی نہیں۔

1000 مریضوں کی دیکھ بھال کے لئے صرف 4سوشل ورکرز ہیں جنہیں اپنے رول کے بارے میں بھی پختہ یقین نہیں اور وہ ہسپتال کے انتظامی کنٹرول میں بھی نہیں ہیں اور انہیں دیگر کام بھی سونپ دیئے جاتے ہیں۔

ہسپتال میں داخلہ اور ڈسچارج کے پروسیجرز بھی بہت پیچیدہ اور تکلیف دہ ہیں بلکہ انہیں غیر انسانی کہا جائے تو بہتر ہوگا۔ ڈسچارج کسی اذیت و ذلت سے کم نہیں۔

ہسپتال میں ماہرین نفسیات کی تعداد انتہائی کم اور نامناسب ہے۔

اوسطاً 600 سے 700 مریض آئوٹ ڈور PATIENT ڈیپارٹمنٹ میں دیکھے جاتے ہیں، سوائے اتوار کے جنہیں اوسطاً 8 ڈاکٹرز دیکھتے ہیں یعنی ایک ڈاکٹر 88 مریض دیکھتانہیں، بھگتاتا ہے (OPDمیں) غلط تشخیص اور ٹریٹمنٹ عام ہے۔

نو تعمیر شدہ عمارت میں HOSTILE اور VIOLENTمریضوں کیلئے "SECLUSION ROOMS" جو بہت عمدہ خیال تھا لیکن بری طرح انحطاط کا شکار ہے۔

PHARCOTHERAPYانتہائی غیر تسلی بخش ہے ۔ VIOLENT مریضوں کا حال بہت خراب ہے۔

موجودہ سہولتیں متروک، آؤٹ ڈیٹڈ اور نامناسب ہی نہیں ناکافی بھی ہیں ۔ OCCUPTIONAL THERAPISTS بھی ناکافی ہیں ۔

ڈاکٹرز کی ایک ٹیم دو ہفتوں میں ایک بار لوکل جیل جا کر قیدی ذہنی مریضوں کو EXAMINE اور ٹریت کرتی ہے۔ ہسپتال میں "BOARD OF CERTIFICATION"کی ایک ماہانہ میٹنگ بھی ہوتی ہے تاکہ عدالتوں کی معاونت کرسکے بحوالہ FORENSIC PSYCHIATRY یہ بھی ایسی خامیوں سے بھرپور ہے جن کا نوٹس لینا اشد ضروری ہے۔

یہی حال REHABILITATION FACILITES کا ہےا ور ہیومن ریسورسز کا قحط بھی ہرلیول پر انتہائوں کو چھو رہا ہے۔ تقریباً 280 منظور شدہ میڈیکل افسران کی پوسٹس زیادہ تر خالی ہیں۔ اسی طرح کلینیکل سائیکالوجسٹس کی اسامیوں کابھی یہی حال ہے اور ایئرکنڈیشنرز، بستر دیگر فرنیچر، عمارت کی خستگی، ECT مشینیں، مناسب جگہوں پر CCTV کیمروں، ایمرجنسی کے لئے الارم سسٹم وغیرہ کا بھی اﷲ ہی حافظ ہے۔

مجھے یہ صورت حال ملک کے نامور اور کوالیفائیڈ ترین ماہر نفسیات پروفیسر ڈاکٹر سعد ملک نے خاتون اول کے دورہ سے چند روز پہلے بتائی تھی جسے میں نے لٹکا دیا کہ اس معاشرہ میں تو ہوش مندوں پر کوئی رحم نہیں کھاتا ’’پاگلوں‘‘ کی کون سنے گا لیکن وزیر اعظم کی اہلیہ کے دورہ نے امید دلائی کہ شاید یہ کالم ’’فالو اپ‘‘ کے طور پر کسی کام آسکے اور بشریٰ بی بی بے زبانوں کے بارے میں بہتر طور پر جان سکیں کیونکہ ان کے دورہ پر تو تقریباً ’’سب اچھا‘‘ ہی ہوگا کہ یہی ہماری ’’روشن روایات‘‘ ہیں۔

کاش محترمہ کا یہ دورہ بابرکت ثابت ہو، نتیجہ خیز ہو۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔