بلاگ
Time 26 ستمبر ، 2021

کیا آج کا انسان ایب نارمل ہے ؟

ایک چیز ہوتی ہے، جسے Stimulusکہتے ہیں۔ا سٹیمیولس کا مطلب یہ ہے کہ ایک زندہ شے کے ساتھ جب کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو اس کی بنیاد پر وہ سیکھتا اور اپنا ردّعمل دیتا ہے۔ ایک معصوم بچہ زندگی میں پہلی بار سڑک پہ ایک گاڑی دیکھتا ہے۔ 

یہ ایک اچھا اسٹیمیولس ہے۔ ابھی وہ بیچارہ دیکھ ہی رہا ہے کہ دو گاڑیاں انتہائی خوفناک قوت سے آپس میں ٹکرا جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس نے تباہی دیکھی، دھماکے کی آواز سنی اور خون اگلتے مسافردیکھے۔ یہ براا سٹیمیو لس ہے۔ اسٹیمیو لس میں جتنی زیادہ شدت ہوگی، اتنی ہی زیادہ قوت کے ساتھ وہ دماغ میں ریکارڈ ہو جاتا ہے۔ کچھ اسٹیمیولس قبر تک جاتے ہیں۔

ایک اسٹیمیولس وہ بھی ہے، جس کو اللہ القارعۃ کہتا ہے۔ القارعۃکیا ہے ؟ دل دہلادینے والا حادثہ۔ انگریزی میں اسے"The Frightening Calamity" کہا گیا ہے۔ ایک خوفناک دھماکہ، جس کے نتیجے میں زمین کو ایسا زوردار جھٹکا لگے گا کہ پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح ٹوٹ کر ہوا میں اڑ جائیں گے جیسے ایک گاڑی پوری قوت سے بریک لگائے تو ڈرائیور اچھل کر اسٹیرنگ سے جا ٹکرائے۔ دوسری جگہ لکھا ہے :بے شک قیامت کا زلزلہ بڑی سخت شے ہے۔ یہ اسٹیمیو لس اس قدر خوفناک ہوگا کہ ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے کو بھول جائے گی۔

تاریخ میں ایسے بچوں کی مثالیں موجود ہیں، جنہیں Stimulusنہیں مل سکا۔ ایک بچی کا باپ ذہنی مریض تھا۔ اس نے اسے انسانوں سے الگ کر دیا۔ اس نے نہ خود کبھی اس سے کوئی بات کی اور نہ اس کی یرغمال ماں کو کر نے دی۔ اسے خوراک تو ملتی رہی لیکن اس سے بات کرنے والا کوئی نہ تھا۔ 

نتیجہ یہ نکلا کہ وہ زندہ رہی لیکن ایب نارمل ہو گئی۔ پھر کسی نہ کسی طرح اس کی ماں پولیس تک پہنچی اور ساری کہانی سنائی۔ پولیس نے اسے سرکاری تحویل میں لے لیا۔ اب وہ ایک خوفناک خبر بن کر دنیا کے سامنے آئی۔ ایسی بچی، جس نے جنم لینے کے بعد پندرہ بیس سال کسی انسان کا سامنا نہیں کیا۔ ماہرین اس پہ ٹوٹ پڑے۔ بعد ازاں یہ ثابت ہو گیا کہ Stimulusکی عدم موجودگی کی وجہ سے دماغ کو پہنچنے والا نقصان دائمی تھا۔

آج انسان دن رات اسٹیمیولس وصول کرنے پر مجبور ہے۔آپ کو وہ دن یاد ہے، جب پولیس والوں نے تین بچوں کو گاڑی سے اتار کر ان کے سامنے اُن کے ماں باپ کو گولیوں سے بھون دیا تھا۔ کیا آپ کو وہ دن یاد ہے، جب سیالکوٹ موٹر وے پر بچوں کو یرغمال بنا کر ان کی ماں کوگاڑی سے اتار کر زیادتی کی گئی۔

 ہر روز یہ خبریں ہم پہ نازل ہو رہی ہیں۔ برما میں قتلِ عام کی وڈیوز ہر شخص تک پہنچیں۔ چین سے کورونا پھیلنا شروع ہوا تو وہاں جانوروں کے ساتھ ہونے والا ہولناک سلوک ویڈیوز کی صورت میں سامنے آیا۔ آپ زندہ جانور کی کھال اپنے سامنے اترتے ہوئے دیکھیں تو کب تک نارمل رہیں گے ؟آپ کے اندر ایک اذیت پسند پیدا ہو جائے گا۔

جس بچے کے سامنے اس کے ماں باپ کو گولیوں سے اڑا دیا جائے، وہ باقی زندگی نارمل کہاں رہے گا؟ دوستوں نے بچپن کی یادیں تازہ کرنے کے لیے ایک گروپ بنایا تھا۔ پھر ایک مہرباں نے وہاں حادثات میں مرنے والوں کے آخری لمحات اور لاشوں کی ویڈیوز لگانا شروع کیں۔ کچھ عرصے بعد تڑپتے اور مرتے ہوئے لوگوں کو دیکھ کر ہونے والی اذیت ختم ہو گئی۔ یہ سلسلہ اگر جاری رہتا تو آہستہ آہستہ آپ کو الٹا لطف آنا شروع ہو جاتا۔ یہ ہے وہ ایب نارمیلٹی، جس کی میں بات کر رہا ہوں۔

آپ جب سوشل میڈیا کھولتے ہیں تو منٹو ں میں درجنوں اور دنوں میں سینکڑوں اسٹیمیو لس ہم پہ نازل ہوتے ہیں۔ بے شمار ایسے واقعات آپ دیکھتے ہیں جو آپ کو شدید اذیت میں مبتلا کردیتے ہیں۔ ایک ہجوم دو بھائیوں کو ڈنڈے مار مار کے قتل کر تا ہے۔ کچھ لوگ ایک عورت کو آگ لگا کر قتل کر تے ہیں۔ ایک چچا اپنے دو تین سالہ بھتیجے کو درخت سے الٹا لٹکا کے ڈنڈوں سے پیٹ رہا ہے۔ 

ہر طرف ایک عجیب طرح کی بے چینی ہے۔ جو نہیں دیکھنا چاہتا، اسے بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ سوشل میڈیا سے وہ دور نہیں رہ سکتا۔ہر طرف سے گھنائونی معلومات ہم پہ نازل ہو رہی ہیں۔ آپ اپنے ایمان سے بتائیں کہ کیا آپ ٹی وی پر یہ خبر سننا چاہتے تھے کہ بچوں کے سامنے ان کے ماں باپ کو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ نہیں دیکھنا چاہتے تھے لیکن دیکھنا پڑی۔

کوئی شک نہیں کہ یہ آخری زمانہ ہے۔ آج Stimulusبہت زیادہ ہو چکا۔ پہلے لوگ کئی کئی گھنٹے فارغ بیٹھے رہتے تھے یا جانور چراتے تھے۔ اب ایک ایک منٹ اسمارٹ فون استعمال کرتے ہوئے مسلسل ہر طرح کی خبریں بارش کی طرح برس رہی ہیں۔ زمین پہ انسان کی کل عمر تین لاکھ سال ہے۔ 

اڑھائی لاکھ سال وہ پتھر اور ہڈیوں کے اوزاروں سے جانور شکار کرتا رہا۔ پھر نجانے کیا ہوا کہ پہیے سے ایجادات شروع ہوئیں، انٹرنیٹ اور اسمارٹ موبائل فون پہ آکر ختم ہوئیں۔ جنگیں پہلے بھی ہوئیں لیکن ہیروشیما اور ناگاساکی کے خوفناک اسٹیمیولس نے جاپانیوں کو روبوٹ بنا ڈالا۔

 آج وہ دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوم ہیں مگر اپنے ماضی کے سو فیصد برعکس اب جنگوں سے نفرت کرتے ہیں۔ اگر اسٹیمیولس نہ ملنے والا دماغ بیمار ہوجاتا ہے تو جس دماغ کو دن رات اسٹیمیولس ہی ملتا رہے، وہ کہاں نارمل رہے گا۔ نہیں نارمل رہتا۔ ہم آج کے انسان کہاں سے نارمل ہیں ؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔