بلاگ
Time 26 ستمبر ، 2021

چار کے ٹولے کی چین مخالف سرد جنگ

چین کے خلاف سرد جنگ کے باقاعدہ اعلان کے بعد چار کے ٹولے (QUAD) جس میں امریکہ، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا شامل ہیں، کا گزشتہ روز واشنگٹن میں اجلاس کیا ہوا کہ پورا بھارتی میڈیا ’’افغان، پاکستان اور چین رابطوں‘‘ کے خلاف چار کے ٹولے کے ممکنہ اعلان جنگ کروانے کے لئے ہذیان میں مبتلا ہوگیا۔

 لیکن حیران کن حد تک امریکہ اور یورپین میڈیا کے لئے چار کے ٹولے کی وہائٹ ہاؤس میں سربراہی میٹنگ نہ صرف یہ کہ شہ سرخی کا باعث نہ بنی بلکہ ہیٹی کے مہاجرین سے ہونے والا بہیمانہ سلوک، ہواوے کی چینی فائنانس افسر کی کینیڈا سے رہائی، جرمن انتخابات اور اسپین کے ایک جزیرے میں لاوے کے پھٹ پڑنے کے مناظر ٹیلی وژن اسکرین پر چھائے رہے۔

 جو تھوڑی بہت خبر ملی بھی تو یہ کہ چار کے ٹولے نے چین کے معاشی اُبھار کو روکنے اور ’’جمہور دوست‘‘ سامراجیت کو چین کے ’’آمرانہ نظام‘‘ کے مقابل کھڑا کرنے کے مقاصد پر مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنے پر غور کیا۔ چار کے ٹولے کا اجلاس فی الحال تبادلہ خیال کا فورم رہا جو ایشیا و بحرالکاہل میں چین کی ہر طرح کی ناکہ بندی کا بندوبست کرے گا۔

 دہشت گردی کے خلاف جنگ کی سامراجیت کے بظاہر اختتام پر سامنے آیا بھی ہے تو ’’جمہور دوست‘‘ سامراجیت کا نظریہ۔ ’’جمہور دوست‘‘ ہونے کی پر فریب آئیڈیالوجی تو خود امریکہ میں 6 جنوری کو کیپٹل ہل پہ ٹرمپ کے حامیوں کے حملے اور امریکی جمہوریت اور انتخابات کو رد کرنے سے ظاہر ہوچکی ہے یا پھر نسل پرستی کے خلاف ’’بلیک لائیوز میٹر‘‘ اور ’’می ٹو‘‘ موومنٹس سے طشت از بام ہوچکی ہے۔

 رہا ریپبلکن سیکولر انڈیا تو وہ کبھی کا ہندتوا کی فسطائی فرقہ واریت کے طوفان کی نذر ہوگیا ہے۔ اب مقابلہ ہے تو ایک ہندو اکثریت کے حامل ملک میں ہارڈ ہندتوا اور سافٹ ہندتوا کا۔ گاندھی جی کے ریپبلکن انڈیا کا یہ حشر ہونا تھا، گمان بھی نہیں تھا۔ لیکن برصغیر کی مذہبی تقسیم اور دو قومی نظریہ کی بنیاد پر خون آشام پارٹیشن نے دو منقسم مملکتوں کو مذہبی انتہا پسندی کی طرف دھکیلنے کی راہ روزِ اول سے ہی ہموار کردی تھی۔ ’’جمہور دوست‘‘ لاحقہ بھی بدقسمتی سے تفریقی یا منتخبانہ ہے جس کا اطلاق بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک پہ نہیں ہوگا۔

 صدر بائیڈن جو ٹرمپ کی آمریت پسندی کے خلاف جمہور دوست ایجنڈے پہ منتخب ہوئے تھے، بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کے مسلمانوں کے خون سے لتھڑے ہوئے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں تھامنے سے گریزاں نظر آئے اور انہیں یاد ہوگا کہ گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد امریکہ نے مودی کے امریکہ میں داخلے پہ پابندی بھی لگائی تھی او رمودی نے ٹرمپ کی انتخابی مہم میں بڑے جلسے کر کے زبردست حمایت کی تھی۔

 دونوں کی ملاقات کا ماحول مضمحل اور بوجھل بوجھل دکھائی دیا۔ ویسے بھی جوبائیڈن کے امریکہ نے جو بدترین سلوک ہیٹی کے مہاجرین سے کیا اور کیوبا سے وینزویلا اور نکاراگوا تک امریکی جوکررہے ہیں، وہ استعمار کی ’’جمہور دوستی‘‘ کے پردے کو چاک کرتا ہے۔

دنیا کو بڑے خطرات درپیش ہیں۔ اول ماحولیاتی تباہی ہے جو انسان کے قدرت کے بدترین استحصال اور کثیر القومی سرمایہ دارانہ کارپوریشنز کے ہاتھوں تباہی کا شاخسانہ ہے اور اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق تمام سرخ حدیں کراس ہوچکی ہیں، ہر جمعہ کو ماحولیاتی بقا کے کارکن دنیا بھر میں احتجاج کررہے ہیں کہ کاربن اور ماحولیاتی ٹمپریچر میں اضافہ فی الفور روکا جائے اور یہ کہ دنیا کے کثافت کار ممالک کے اقدامات نہایت ناکافی ہیں۔ 

دوسرا بڑا مسئلہ عالمی سرمایہ داری نظام اور اس پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی اجارہ داری سے ایک عالمی غیر منصفانہ نظام کے باعث غریب و امیر، ترقی یافتہ اور پسماندہ رکھے جانے والے ممالک میں تفاوت کی خلیج بڑھ رہی ہے جس کے باعث دنیا میں استحکام ممکن نہیں۔ تیسرا بڑا مسئلہ وباؤں اور کووڈ قسم کی وبائی بیماریوں سے انسانیت کو درپیش خطرات ہیں جو خود تباہ کن سرمایہ داری اور انسانی حقوق و ضروریات کو نظر انداز کرنے کا تحفہ ہے۔

 دلچسپ بات ہے کہ چین اور اس کے صدر ژی ان تینوں بڑے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے کمربستہ ہیں۔ وہ کاربن کے نکاس کو 2030ء تک آدھا کرنے اور 2060ء تک صفر کردینے کو تیار ہیں۔ 

کووڈ کے خاتمے کے لئے انہوں نے ہر سال 2ارب ویکسینز بلا معاوضہ فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ رہا عالمی استعماری اجارہ دار سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے مفاد پرستانہ عالمی قوانین، چین انہیں چیلنج کررہا ہے اور اقوام متحدہ کے تحت پُرامن بقا ئے باہمی اور ملکوں کے مابین مساوات کی بنیاد پر تمام انسانیت کی سانجھی شراکتی ترقی پہ زور دے رہا ہے۔ چین کے خلاف سرد جنگ تو شروع کردی گئی ہے لیکن یہ جیتی جاسکتی ہے نہ کسی نتیجے پہ پہنچ سکتی ہے۔

 چین نے چوتھے صنعتی انقلاب میں امریکہ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور 2049ء تک چین کا ایک ترقی یافتہ سوشلسٹ ملک بننے کا منصوبہ ہے اور وہ کسی طرح کی جنگجوئیت اور علاقہ گیری میں اُلجھنے کو تیار نہیں۔ اس نئی محاذ آرائی میں بھارت امریکہ کی بوگی بننے کو شرمناک حد تک تیار ہے۔ لیکن سارا زور چین اور پاکستان کے خلاف ہے۔ برصغیر کی بدقسمتی ہے کہ خون ریز تقسیم کے بعد دونوں ملک اتنی باہمی نفرت کا شکار ہیں کہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے میں عافیت جانتے ہیں۔ اب افغانستان ہی کو لے لیجئے امریکہ کے انخلا سے بھارت میں صف ماتم بچھی ہے اور پاکستان میں شادیانے بج رہے ہیں کہ بھارت کا اثر ختم ہوا۔

 لیکن تمام دنیا پریشان ہے کہ افغانستان کا آتش فشاں کیسے ٹھنڈا پڑے۔ افغانستان کے تمام ہمسائے انگشت بدنداں ہیں کہ اکلوتے طالبان کی حکومت خانہ جنگی کو دعوت دے گی، دہشت گردی پھیلے گی، انسانی بحران خوفناک ہوجائے گا اور مہاجرین کی ایک اور یلغار سرحدوں کے پار پھیل جائے گی۔ دنیا کو توقع تھی کہ القاعدہ اور اسلامی ریاست عراق و شام (داعش) کے خاتمے کے بعد عالمی دہشت گردی زوال پذیر ہوجائے گی اور مقامی مذہبی انتہا پسندی یا جہاد سے کوئی عالمی خطرہ درپیش نہیں۔

 جہاد کی سیاست میں طالبان ماڈل کامیاب رہا ہے بشرطیکہ وہ معروضی ضرورتوں اور تقاضوں سے سمجھوتہ کر کے افغان عوام کو مزید ابتلائوں سے بچائے لیکن لگتا ہے کہ سخت گیر جہادی کمانڈر اب بھی خود کش راہ پہ گامزن ہیں اور وزیراعظم عمران خان کی طالبان حکومت کے لئے سفارت کاری پر بھی معترض ہیںجبکہ تحریک طالبان پاکستان حملوں کے لئے تیار ہے۔

 طالبان حکومت کو تسلیم کروائے جانے میں آخر اتنی جلدی کیا ہے؟ جب تک کہ وہ ایک مہذب حکومت نہیں بن جاتی۔آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ چین کے خلاف عالمی استعمار کی سرد جنگ کا وہ نتیجہ نکلنے والا نہیں جو سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ کی صورت میں نکلا تھا۔ البتہ امریکہ کی عالمی بالا دستی کا زوال شروع ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔