28 ستمبر ، 2021
گزشتہ 100 سال میں مشرقِ وسطیٰ نے ناقابلِ یقین تبدیلیاں دیکھیں۔ جن میں سلطنتِ عثمانیہ کا خاتمہ، یورپ کا تسلط، اسرائیل کا قیام اور جنگیں، عرب قوم پرستی اور سوشل ازم کے تجربات، امریکی ثالثی میں اسرائیل، فلسطین امن کا خواب اور اس کے نتیجے میں ملنے والے دھوکے۔ انقلابِ ایران۔ عراق پر حملے کے بعد خطے میں امریکا کا زوال، عرب بہار، داعش کا قیام اور اس کے نتیجے میں ہونے والی بربادی اور ایران کے ساتھ مغرب کے اتحادی عربوں کی صلح کی ناکام کوششیں شامل ہیں۔
تبدیلیوں کا سلسلہ ابھی تک رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ سعودی عرب اس وقت مشرق وسطیٰ کا اہم ترین ملک ہے اور دنیا میں تیل برآمد کرنے والے ممالک میں سب سے اونچا نام رکھتا ہے لیکن سعودی حکمرانوں نے اپنی تجارت اور معیشت کا انحصار تیل کے بجائے دیگر ذرائع پر رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پرنس محمد بن سلمان نے اپنے انقلابی اقدامات کی بدولت بہت جلد دنیا کی توجہ حاصل کرلی۔ صدر ٹرمپ کے دور اقتدار کے دوران تو وہ دنیا کے چند طاقتور ترین افراد میں شمار ہونے لگے تھے۔
سعودی ولی عہد پرنس محمد بن سلمان، سعودی عرب کو اس بلندی پر لے جانا چاہتے ہیں جہاں اس وقت جرمنی، فرانس یا ہانگ کانگ کی ریاستیں کھڑی ہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے اپنا ویژن واضح کر دیا ہے۔ سعودی دارالحکومت ریاض اس وقت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ شیشے کی بلند بالا عمارتیں، شہر میں چمکتی ہوئی بڑی سڑکیں، بڑے بڑے شاپنگ مالز، غیرملکی کمپنیوں کے شورومز اور عوام کے طرز زندگی میں نمایاں تبدیلی، پرنس محمد بن سلمان کے ویژن کی عکاسی کرتی ہیں۔
وہ سعودیہ کے بڑے شہروں میں نائٹ کلب، سینما ہال اور ریستوران کھول کر انہیں ٹوکیو، لندن اور نیویارک کے برابر کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ البتہ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ وہاں کا مذہبی طبقہ ان اقدامات کو پسند نہیں کر رہا چنانچہ سعودی نوجوانوں کی بڑی تعداد، جو کل آبادی کا قریب 50فیصد ہیں، میں ان اقدامات کی مقبولیت کے باعث کھل کر گفتگو نہیں ہورہی۔ سعودی عرب اپنی مستقبل کی منصوبہ بندی میں یہ ارادہ رکھتا ہے کہ 2030 تک سعودی عرب کو مشرق وسطی کا معاشی اور تجارتی مرکز بنا دیا جائے۔
سعودی حکومت نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ ایسی تمام کمپنیاں جو سعودی عرب میں کاروبار کرنا چاہتی ہیں وہ اپنا ہیڈ کوارٹر بھی سعودی عرب میں منتقل کریں۔ سعودی عرب نے اپنے اہداف کے حصول کے لئے غیرملکی کمپنیوں کو مراعات دینے کا بھی وعدہ کیا ہے۔اس وقت قریب 500غیرملکی کمپنیوں کو راغب کرنے پر کام ہو رہا ہے۔ سعودی حکام کا دعویٰ ہے کہ 24بڑی غیرملکی کمپنیوں نے ریاض میں اپنے دفاتر کھولنے کا معاہدہ کر لیا ہے۔ بدلتے ہوئے سعودی عرب میں خارجہ پالیسی کی ترجیحات بھی تبدیل ہو چکی ہیں۔
افغانستان میں طالبان حکومت کے معاملے میں سعودی عرب کی عدم دلچسپی،بدلتی ہوئی پالیسی کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ 1996میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنے والے ممالک میں سعودی عرب سرفہرست تھا لیکن اس مرتبہ سعودی عرب محتاط رویہ اختیار کئے ہوئے ہے۔ مشرق وسطیٰ کی سیاست میں بھی سعودی عرب نے اپنی ترجیحات تبدیل کر لی ہیں۔ بغداد کانفرنس میں ان ممالک کے ساتھ بھی نشست و برخاست کی جن کے ساتھ ماضی میں ورکنگ ریلیشن تک نہ تھے۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی بھی نئے سعودی عرب کی بدلتی ہوئی ترجیحات کا شاخسانہ ہے۔
جنوبی ایشیا کے متعلق بھی سعودی ترجیحات بدل چکی ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے۔ یہاں کے داخلی معاملات میں بھی سعودی عرب کا ایک کردار رہا ہے، ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی سے بچانے کی کوششوں سے لے کر میاں نواز شریف کو اڈیالہ جیل سے نکال کر سرور پیلس جدہ پہنچانے تک سعودی عرب کا فعال کردار رہا ہے لیکن اب پاکستان کے علاوہ بھارت کے ساتھ بھی سعودی عرب کے تعلقات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ سعودی وزیر خارجہ پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کروانے کی بات کر رہے ہیں۔
حالیہ دنوں میں سعودی وزیر خارجہ کا دورہ بھارت بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ایران کے متعلق بھی سعودی پالیسی تبدیل ہونے جا رہی ہے۔پرنس محمد بن سلمان کی انتظامیہ اس حقیقت کو تسلیم کر چکی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا کردار محدود ہوتا جا رہا ہے اور اب بدلتے ہوئے حالات میں ان کا کردار بھی تبدیل ہو جائے گا۔عالمی سیاست میں رونما ہونے والی غیرمرئی تبدیلیوں نے پس پردہ ایک ہیجان برپا کر رکھا ہے۔ پرنس محمد بن سلمان کا سعودی عرب بھی اسی ہیجان کا شکار ہے۔ دیگر ممالک کے مقابلے میں سعودی عرب کی اہمیت اسلئے بھی مختلف ہے کہ یہاں پر حرمین شریفین واقع ہیں جن کے ساتھ دنیا بھر کے مسلمانوں کی عقیدت کے رشتے جڑے ہوئے ہیں۔
وہاں پر ہونے والی تبدیلیوں سے پوری دنیا کے مسلمان متاثر ہوتے ہیں۔ اسلئے انہیں پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔ ماضی کی طرح اگر سعودی عرب عالم اسلام کی قیادت کا خواہشمند ہے تو اسے اپنا دل بڑا کرنا ہوگا۔ تمام مسلم ممالک کیساتھ تعلقات کی نئی جہت ترتیب دینا ہوگی اور ماضی میں جن ممالک نے مشکل وقت میں سعودی عرب کا ساتھ دیا ہے ان کی اہمیت بھی تسلیم کرنا ہوگی، خوش قسمتی سے پاکستان میں سعودی عرب کے موجودہ سفیر، جو اس سے قبل یہاں ملٹری اتاشی بھی رہ چکے ہیں، پاکستان کے حالات اور معاملات سے بخوبی آگاہ ہیں۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ وہ اپنے محدود دائرہ سے نکل کر اب ان مکاتب فکر سے بھی ملاقاتیں کر رہے ہیں جن کا داخلہ سعودی سفارت خانے میں ممنوع تھا۔ سعودی حکومت نے پاکستانی طلباء کے لئے لاتعداد وظائف کا بھی اعلان کیا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ بدلتا ہوا سعودی عرب پاکستان کیلئے مفید ہوگا اور مسلم امہ کی قیادت کا خواب بھی پورا ہوگا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔