28 ستمبر ، 2021
امریکی فوج کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل مارک ملی کا کہنا ہےکہ افغانستان میں القاعدہ دوبارہ منظم ہوسکتی ہے، افغان فوج اور حکومت ختم ہونےکی توقع اتنی جلدی نہیں تھی۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق واشنگٹن میں امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کا افغانستان پر اجلاس ہوا، اجلاس میں امریکی وزیر دفاع جنرل آسٹن، سینٹ کام کمانڈر جنرل مکنزی اور جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل مارک ملی بھی شریک ہوئے۔
جنرل ملی کا کہنا تھا کہ دوحہ معاہدے نے افغان فوج کا مورال کم کیا، طالبان اب بھی دہشت گرد تنظیم ہے،طالبان کے اب بھی القاعدہ کے ساتھ روابط ہیں، افغانستان میں القاعدہ دوبارہ منظم ہوسکتی ہے اور افغان سرزمین امریکا کے خلاف استعمال ہو سکتی ہے۔
جنرل ملی کا کہنا تھا کہ افغان فوج کا اس طرح تحلیل ہونا متوقع نہیں تھا، اشارے تھے کہ امریکی انخلا سے افغان فوج اور حکومت ختم ہوسکتی ہے، لیکن افغان فوج اور حکومت ختم ہونےکی توقع اتنی جلدی نہیں تھی، افغان فوج میں نیت اور قیادت کا فقدان تھا، افغانستان سے انخلا سے امریکی ساکھ متاثر ہوئی، ٹرمپ اوربائیڈن کوخبردار کیا تھا کہ اچانک انخلا سے افغان حکومت گر سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دوحہ معاہدے کے تحت طے شدہ شرائط میں سے طالبان نے صرف ایک شرط پوری کی جو اتحادی افواج پر حملہ نہ کرنے کی تھی۔
سینٹ کام کمانڈر جنرل مکنزی کا کہنا تھا کہ میراخیال تھا کہ امریکی فوج افغانستان میں رہنی چاہیے کیونکہ امریکی فوج کے انخلا سے افغان فوج متاثر ہوگی،طالبان کے زیر اثر افغانستان کی طرف سے پاکستان پر دباؤ بڑھ سکتا ہے، آنے والے دنوں میں پاکستان کے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔
جزل مکنزی کا کہنا تھا کہ افغانستان تک فضائی اور زمینی رسائی پاکستان کی ذریعے ہوتی رہی، افغانستان تک رسائی سے متعلق پاکستان کے ساتھ بات چیت رہی ہے۔
امریکی وزیر دفاع جنرل آسٹن کا کہنا تھا کہ افغانستان میں مزید کسی فوجی کارروائی کا کوئی ارادہ نہیں،
جنرل آسٹن کا کہنا تھا کہ افغانستان میں ہم نے ایک ریاست تو بنالی پر ایک قوم نہ بناسکے،حقیقت یہ ہےکہ ہم نے اور ہمارے اتحادیوں نے جو افغان فوج کو تربیت دی وہ بہت جلد بہہ گئی، متعدد بار ایک گولی چلائے وہ ہتھیار ڈال گئے، ہزاروں افغان فوج اور پولیس کے اہلکار مرگئے لیکن ہم ان میں جیتنے کی خواہش نہیں پیدا کرسکے۔