پاکستانی پاسپورٹ کی تنزلی

اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق تمام رکن ممالک کو برابری کی حیثیت حاصل ہے اور ممالک کی درجہ بندی میں کوئی ملک بڑا یا چھوٹا نہیں۔ اس لحاظ سے ان ممالک کے پاسپورٹ جو کسی ملک کی شناخت ہوتا ہے، کو بھی برابری کی حیثیت حاصل ہونا چاہئے مگر حقیقت غالباً اس کے برعکس ہے۔ 

گزشتہ دنوں دنیا کے ممالک کے پاسپورٹ کی رینکنگ پر مبنی ’’ہینڈلے اینڈ پارٹنرز‘‘ کی 2021 کی رپورٹ نظر سے گزری۔ ہینڈلے اینڈ پارٹنرز کی رپورٹ اور مختلف ممالک کی درجہ بندی کسی ملک کے پاسپورٹ کی طاقت کا معیار، اس کی بغیر ویزا انٹری یا ویزا آن آرائیول کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے اور اِس حوالے سے انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (IATA) کا تعاون حاصل رہا ہے۔

 رپورٹ کے مطابق، پاکستانی پاسپورٹ کے معیار میں تیزی سے گراوٹ آئی ہے اور اب یہ پاسپورٹ دنیا کے 5 کمزور ترین پاسپورٹ میں شمار کیا جاتا ہے۔ پاسپورٹ انڈیکس کے مطابق رواں سال دنیا کے طاقتور ترین پاسپورٹ کا اعزاز جاپان کے نام رہا جہاں کے شہری 193 ممالک میں ویزا فری یا ویزا آن آرائیول کی سہولت سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں، دوسرے نمبر پر سنگاپور کے شہری193ممالک، تیسرے نمبر پر جرمنی اور جنوبی کوریا کے شہری 191 ممالک، چوتھے نمبر پر فن لینڈ، اٹلی، لکسمبرگ اور اسپین کے شہری 190ممالک جبکہ امریکہ، برطانیہ اور یورپ کے بیشتر ممالک پانچویں نمبر پر ہیں جہاں کے شہری 189ممالک کا ویزا فری یا ویزا آن آرائیول سفر کرسکتے ہیں،اُن میں برطانیہ بھی شامل ہے۔ 

انڈیکس میں پاکستانی پاسپورٹ کو افریقہ کے پسماندہ ترین ملک صومالیہ سے بھی نیچے کمزور ترین ممالک کی فہرست میں دیکھ کر افسوس ہوا جہاں پاکستان، افغانستان، عراق، شام، یمن، فلسطین، نیپال، لیبیا، شمالی کوریا، سوڈان، لبنان، کوسوو اور ایران کی صف میں 77 ویں نمبر پر کھڑا نظر آیا جہاں کے شہری 32ممالک میں ویزا فری یا ویزا آن آرائیول کی سہولت حاصل کرسکتے ہیں جبکہ اس انڈیکس میں بھارت اور بنگلہ دیش کے پاسپورٹ کا رینک پاکستان سے بہتر ہے جنہیں درجہ بندی میں بالترتیب 61اور 72 واں نمبر دیا گیا ہے جہاں کے شہری 60 ممالک کے ویزا فری یا ویزا آن آرائیول سفر کی سہولت سے مستفید ہوسکتے ہیں۔

قارئین! آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ 70ء کی دہائی تک پاکستانی پاسپورٹ کا شمار مضبوط پاسپورٹس میں ہوتا تھا اور پاکستانی شہری برطانیہ سمیت بیشتر یورپی ممالک کا بغیر ویزا یا ویزا آن آرائیول سفر کرسکتے تھے۔ پاکستانی پاسپورٹ کی ساکھ کو سب سے زیادہ نقصان سوویت افغان جنگ کے بعد پہنچا جب لاکھوں افغان پناہ گزین پاکستان آئے اور انہوں نے رشوت کے عوض پاسپورٹ حکام سے پاکستانی پاسپورٹس حاصل کئے۔ یہی کچھ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی باشندوں نے کیا جو بیرون ملک غیر قانونی طور پر جب پکڑے جاتے تو اُنہیں پاکستانی تصور کیا جاتا اور اس طرح پاکستانی پاسپورٹ دنیا بھر میں بدنام ہوا جبکہ رہی سہی کسر غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں نے نکال دی جن کے بیرون ملک پکڑے جانے پر پاکستانی پاسپورٹ کی تضحیک ہوئی۔

عالمی انڈیکس میں جوں جوں پاکستانی پاسپورٹ کی رینکنگ میں گراوٹ آتی جارہی ہے، پاکستانیوں کو ویزے کے حصول کیلئے مزید سختیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ یہ امر باعث افسوس ہے کہ سری لنکا، بنگلہ دیش، فلپائن اور تھائی لینڈ جیسے ممالک کے ویزے کے حصول کے لئے بھی پاکستانیوں کو ایک ایک ماہ تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔

ان حالات کے پیش نظر پاکستان کی اشرافیہ کچھ ایسے ممالک میں رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کررہی ہے جہاں مستقل رہائش اور پاسپورٹ کا حصول ممکن ہے۔ ان ممالک میں آج کل ترکی سرفہرست ہے جہاں دو سے ڈھائی لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری پر مستقل رہائش اور کچھ عرصے بعد پاسپورٹ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ میرے کئی جاننے والے اس اسکیم سے فائدہ اٹھاچکے ہیں۔ یو اے ای حکومت نے بھی حال ہی میں ایک نئی اسکیم متعارف کرائی ہے جس کے تحت یو اے ای میں رئیل اسٹیٹ یا کسی بھی شعبے میں 2 ملین درہم کی سرمایہ کاری کرنے پر ’’گولڈ ویزا‘‘ حاصل کیا جاسکتا ہے جس کی مدت 10 سال ہے۔ اس اسکیم میں بھی پاکستانی بہت دلچسپی لے رہے ہیں اور ان کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی بہت زیادہ بڑھ جانے، انفراسٹرکچر نہ ہونے اور دوبارہ امن و امان کی خراب صورتحال پیدا ہونے سے بہتر ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک میں اپنی فیملی سمیت منتقل ہوجائیں۔

پاکستانیوں کے ساتھ دنیا بھر میں ناروا سلوک کی بڑی وجہ یہ ہے کہ آج ہم قائداعظم کا فرمان بھلا کر اپنی عزت، مرتبہ اور پاسپورٹ کا مقام خود گنوا بیٹھے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان ماضی میں اپنی تقاریر میں اکثر اوقات اس کا بات کا عہد کرتے رہے ہیں کہ وہ پاکستانی پاسپورٹ کا وقار دنیا میں دوبارہ بحال کروائیں گے مگر ان کی 3سالہ حکومت میں گرین پاسپورٹ رینکنگ میں اوپر جانے کے بجائے مزید گراوٹ کا شکار ہوگیا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔