بلاگ
Time 06 اکتوبر ، 2021

پنڈورا لیکس۔ کیا ہوگا؟

اللہ عمر چیمہ کی عمر دراز کرے۔ وہ ان چند ایک صحافیوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے جرأت اور صحافتی اخلاقیات کے ساتھ انوسٹی گیٹیو جرنلزم کو زندہ رکھا ہے۔ اب کی بار اُن کے ساتھ صحافت کے ایک اور فخر یعنی فخر درانی بھی مل گئے ہیں جو اپنی جگہ محنت اور بہادری کی مثال ہیں۔ دونوں نے مل کر جو کام کیا، وہ نہایت محنت طلب اور مشکل تھا۔ 

اِن دونوں نے پنڈورا لیکس کے حوالے سے جو کارنامہ سرانجام دیا وہ قابلِ فخر ہے لیکن افسوس کہ پچھلی مرتبہ اُن کی محنت سے ملک کے لئے کوئی خیر کا راستہ نکالا گیا اور نہ اب کی بار ایسا ہوگا۔ وجہ ظاہر ہے کہ اِس ملک میں احتساب کا کوئی ادارہ ہے اور نہ منصفانہ نظام۔ قومی احتساب بیورو سے تو کوئی توقع نہیں کہ یہ ادارہ پنڈورا لیکس کی بنیاد پر کسی کا میرٹ پر احتساب کر سکے گا۔ 

دوسری جگہ عدلیہ ہو سکتی ہے لیکن ہم دیکھ چکے ہیں کہ پانامہ لیکس میں کس طرح صرف شریف فیملی کو پھنسایا اور باقی سب سے متعلق مٹی پائو والی پالیسی اپنائی۔ تیسرا پلیٹ فارم پارلیمنٹ ہو سکتا ہے جو اس طرح کے معاملات کے لئے فورم بن سکتا ہے لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ اِس ادارے میں بھی اتنی سکت باقی نہیں بچی۔ جہاں چیئرمین سینیٹ کے معاملے میں 60 ممبران پر 30 غالب آجاتے ہیں، اس پارلیمنٹ کی قومی اسمبلی کے اسپیکر  وزیراعظم کے تابعداروں جیسا رویہ اپنائے ہوئے ہیں اور ڈپٹی اسپیکر اسٹے آرڈر پر چل رہے ہیں۔ یوں پارلیمنٹ میں بھی اس کا نتیجہ کوئی نہیں نکلے گا۔ اس لئے مجھے پختہ یقین ہے کہ پنڈورا لیکس چند دنوں تک میڈیا ٹاک شوز کا موضوع رہے گا۔ پھر اسی طرح دفن ہو جائے گا جس طرح پانامہ لیکس۔

وزیراعظم عمران خان نے حسبِ روایت بیان جاری کرکے قوم کو گمراہ کرنے کی کوشش کی کہ ان کی حکومت پنڈورا لیکس میں آنے والے ناموں کی تحقیقات کرے گی اور اس سلسلے میں ایک اجلاس بھی منعقد کیا لیکن ان کی اس بات کو کوئی احمق ہی سنجیدہ لے گا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کی حکومت نے بیان جاری کیا تھا کہ پانامہ لیکس کے باقی ناموں کے خلاف بھی کارروائی ہوگی لیکن انہوں نے عملاًکیا کیا؟ اس حوالے سے ان کی حکومت کے سیف الرحمٰن یعنی شہزاد اکبر نے بڑے دعوے بھی کئے تھے لیکن عملاً صورت حال یہ تھی کہ ایک بڑا گروپ ہمارے صوابی کی سگریٹ انڈسٹری سے وابستہ ترکئی خاندان تھا۔ اس خاندان کے بڑی تعداد میں آف شور اکائونٹس تھے۔ اس خاندان کے شہرام ترکئی عمران خان کی پارٹی کے صوبائی وزیر ہیں۔ اس خاندان کا ایک اور فرد ایم پی اے ہے۔ شہرام ترکئی کے والد اور چچا بالترتیب سینیٹر اور ایم این اے ہیں۔ کارروائی تو درکنار ان پر خان کی یہ عنایتیں ساری قوم کے سامنے ہیں۔ 

دوسری مثال زلفی بخاری ہیں۔ پانامہ لیکس میں ان کا نام بھی آف شور اکائونٹس میں تھا۔ ان سے حساب لینا تو درکنار، برطانوی شہری ہونے کے باوجود ان کو مشیر بنایا گیا۔ اب جب انہیں فارغ کیا گیا ہے تو اس کی وجہ بھی آف شور اکائونٹس یا پھر رنگ روڈ اسکینڈل نہیں بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ وہ ایک ایسی جگہ سے بلیک لسٹ ہو چکے ہیں کہ جہاں سے بلیک لسٹ ہونے کے بعد جہانگیر ترین ہو یا کوئی اور، عہدے پر فائز نہیں رہ سکتا البتہ عمران خان آج بھی ان سے چپکے چپکے ملتے رہتے ہیں۔ یوں اگر کوئی یہ توقع کرتا ہے کہ عمران خان کی حکومت ایسے معاملے کو سنجیدگی سے آگے بڑھالے گی جس میں اُسکے اے ٹی ایمز کے نام شامل ہیں، تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔

تاہم پانامہ اور پنڈورا لیکس کا بعض حوالوں سے تجزیہ کرنے کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا، جس کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں۔ مثلاً ان سے ثابت ہو گیا کہ بدنام تو صرف سیاستدان ہوتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ کرپشن ہو یا پھر آف شور اکائونٹس کا معاملہ، اس کی بہتی گنگا میں سب طبقات نے یکساں ہاتھ دھوئے ہیں تاہم ذکر صرف سیاستدانوں کا ہو رہا ہے۔

دوسرا پہلو یہ ہے کہ کرپشن کے حوالے سے سیاست کا زیادہ گند اس وقت سب سے زیادہ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی میں ہی جمع ہے لیکن کمال دیکھ لیجئے کہ پی ٹی آئی آج بھی پروپیگنڈے کے زور پر مخالفین کو کرپٹ اور اپنے آپ کو فرشتوں کی جماعت ثابت کرنے میں لگی ہے۔ 

دوسری طرف اس جانب کسی نے توجہ نہیں دی کہ مذہبی اور قوم پرست جماعتیں، جو پاکستان میں سب سے زیادہ معتوب ہیں، کا اس حوالے سے ریکارڈ کافی حد تک صاف ہے۔ پنڈورا لیکس میں جماعت اسلامی، جے یو آئی، اے این پی یا پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنماؤں کے نام نہیں ہیں تاہم جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق پر اس حوالے سے ایک اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ پاناما لیکس کی آڑ میں وہ بھی عمران خان اور شیخ رشید کی طرح نواز شریف کو ٹھکانے لگانے کے لئے استعمال ہوئے۔ اب اخلاقیات کا تقاضا یہ تھا کہ سراج الحق،نواز شریف کی فراغت کے بعد باقی ناموں کا بھی اسی طرح تعاقب کرتے جس طرح انہوں نے ان کے معاملے کا کیا تھا لیکن چند بیانات پر اکتفا کے سوا انہوں نے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ 

جماعت اسلامی احتجاج کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے اور آئے روز مظاہرے کرتی رہتی ہے لیکن نواز شریف کی فراغت کے بعد جماعت اسلامی نے باقی 4سو سے زیادہ افراد کے آف شور اکاؤنٹس کے معاملے پر کوئی تحریک نہیں چلائی۔ حالانکہ اخلاقیات کا تقاضا یہ ہے کہ سراج الحق نہ صرف پنڈورا لیکس کے معاملے پر سپریم کورٹ جائیں بلکہ پانامہ لیکس کے باقی ناموں کا بھی تعاقب کریں۔

سراج الحق اب اگر اس معاملے کو اس شدت کے ساتھ نہیں اٹھاتے جس شدت کے ساتھ انہوں نے نواز شریف کے آف شور اکاؤنٹس کو اٹھایا تھا تو اس سے بجا طور پر یہ مطلب لیا جائے گا کہ وہ بھی اس وقت اسی طرح اسکرپٹ کے مطابق استعمال ہوئے جس طرح کہ عمران خان اور شیخ رشید ہوئے تھے۔ ان دونوں کو تو پھر بھی صلہ مل گیا لیکن سراج الحق کو تو وہ بھی نہیں ملا۔ ان کا یہ بھی فرض بنتا ہے کہ وہ جسٹس (ر) ثاقب نثار کو اپنا وکیل بناکر پانامہ اور پنڈورا کی بنیاد پر سپریم کورٹ چلے جائیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ثاقب نثار میدان سے غائب ہیں۔ شاید وہ ڈیم پر پہرا دینے میں مصروف ہیں لیکن اگر سراج الحق ان کو اپنی وکالت پر آمادہ کر لیں تو ایک تو عمران خان اپنے اس محسن کو بھی دوبارہ دیکھ اور سن لیں گے اور دوسرا یہ پتہ بھی چل جائے گا کہ اب وہ کس حال اور موڈ میں ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔