Time 07 اکتوبر ، 2021
بلاگ

سیاست یہاں، پیسہ وہاں

سیاست پاکستان میں اور  پیسہ باہر، یہ کام نہیں چلنا چاہئے۔ اگر سیاست کرنی ہے، حکمرانی کا شوق ہے تو ضرور کریں لیکن پھر جتنا بھی پیسہ ہے، پاکستان کے اندر ہی ہونا چاہئے۔

کروڑوں اربوں کی جائیدادیں باہر ہوں اور  سیاست پاکستان میں کریں، اس رواج کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ’’جینا مرنا عوام کے ساتھ‘‘ کی بات کرتے ہیں تو پھر اُس پر عمل بھی کریں۔

بدھ (6اکتوبر) کو جنگ میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق قومی اسمبلی کے 29 ارکان ایسے ہیں جن کے 2019 میں الیکشن کمیشن کو جمع کرائی گئی دستاویزات کے مطابق اثاثے، کاروبار اور جائیدادیں ملک سے باہر  ہیں۔

اہم ترین ناموں میں شہباز  شریف، بلاول بھٹو زرداری، شاہ محمود قریشی، علی زیدی، فہمیدہ مرزا، خواجہ آصف اور دوسرے ارکانِ اسمبلی شامل ہیں۔ خبر کے مطابق کسی رکنِ اسمبلی نے اپنے اثاثوں میں کسی آف شور کمپنی کو ظاہر نہیں کیا۔

اگرچہ وزیراعظم عمران خان کے پاکستان سے باہر کوئی اثاثے نہیں ہیں جبکہ آصف علی زرداری نے بھی کوئی اثاثہ ظاہر نہیں کیا لیکن پاکستان سے باہر دولت رکھنے والوں میں حکمران جماعت پی ٹی آئی سے 13، پی ایم ایل این سے 10، پیپلز پارٹی سے دو، ایم ایل کیو، بی این پی، ایم ایم اے اور ایم کیو ایم سے ایک، ایک ایم این اے ان میں شامل ہیں جنہوں نے پاکستان سے باہر اپنے اثاثے اور کاروباری سرمایہ ڈکلیئر کیا۔

بلاول بھٹو نے کوئی ڈیڑھ ارب کی جائیداد اور پیسہ ملک سے باہر ظاہر کیا، شہباز شریف نے تقریباً 14 کروڑ کے اثاثے ملک سے باہر بتائے۔

شاہ محمود قریشی نے اپنے اور اپنی اہلیہ کے کوئی دو لاکھ پاونڈ ملک سے باہر اکاونٹ میں ظاہر کیے۔ سید علی حیدر زیدی نے دبئی میں ڈھائی ملین درہم مالیت کا کاروباری سرمایہ ظاہر کیا۔

وزیر نے دبئی میں تین لگژری کاروں کے علاوہ ایک بینک اکاونٹ بھی ظاہر کیا جس میں ڈیڑھ لاکھ درہم بیلنس ہے۔ عمران خان کا اپنا پیسہ یا جائیداد باہر نہیں۔

اُن کی حکومت بیرون ملک پاکستانیوں سے بار بار مطالبہ کرتی ہے کہ پاکستان کو ڈالرز بھیجیں تاکہ ہمارے فارن ایکسچینج ریزوز بہتر ہوں لیکن اپنے وزیروں اور ارکانِ اسمبلی کا پیسہ اور جائیدادیں باہر پڑی ہیں۔ یہ ایسا تضاد ہے جس کو دور کیا جانا چاہئے۔

شہباز شریف نے تو کئی سال پہلے اعلان کیا تھا کہ وہ بیرون ملک سے اپنا تمام پیسہ اور جائیداد واپس پاکستان لائیں گے لیکن اس خبر سے ظاہر ہوا کہ اُنہوں نے ایسا نہیں کیا، جو قابل افسوس بات ہے۔

بلاول بھٹو بھی غریبوں کی بات بہت کرتے ہیں، وہ بھی پاکستان کی معیشت اور یہاں کے کاروباری حالات کی بہتری کی تمنا ظاہر کرتے ہیں لیکن ایسا کیوں کہ اپنا پیسہ اور جائیدادیں ملک سے باہر رکھی ہوئی ہیں۔

یہی گلہ بہت سے لوگ نواز  شریف سے کرتے ہیں کہ اُنہوں نے بھی اپنا سارا کاروبار اور پیسہ باہر رکھا ہوا ہے۔ اُن کے بچوں کی تو پاناما لیکس میں آف شور کمپنی بھی نکل آئی جس کی وجہ سے اُن کو وزارتِ عظمیٰ سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔

چند دن قبل پنڈورا لیکس بھی سامنے آگئیں جن میں کوئی سات سو پاکستانی نکلے جن کی ملک سے باہر آف شور کمپنیاں ہیں لیکن پاناما کے برعکس پنڈورا لیکس کا وہ سیاسی اثر عمران خان کی حکومت پر نہ ہو سکا جس کی وجوہات پر بعد میں کبھی بات ہو گی۔

میری خواہش ہے کہ پاکستان میں یہ قانون بنایا جائے کہ جس نے سیاست کرنی ہے، ممبر پارلیمنٹ بننا ہے یا صوبائی اسمبلیوں کا الیکشن لڑنے کی خواہش ہے تو ایسے لوگوں کے لئے یہ لازمی قرار دے دیا جائے کہ اُن کا نہ کوئی اثاثہ، جائیداد، بنک اکاونٹ، بزنس ملک سے باہر ہو سکتا ہے اور نہ ہی وہ کوئی آف شور کمپنی ملک سے باہر رکھ سکتے ہیں۔

یہ شرط ایسے سیاستدانوں اور اُن کی بیویوں اور بچوں (جو Independentنہ ہوں) پر ضرور لاگو ہونی چاہئے۔ سیاست اور حکمرانی پاکستان میں اور پیسہ جائیداد باہر یہ تماشہ بند ہونا چاہئے۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔