07 اکتوبر ، 2021
وزیراعظم نے یہ بتاکر قوم پر ایک اور احسان کیا ہے کہ انہیں مہنگائی کا احساس ہے مگر یہ عالمی منظر نامہ ہے۔ دوسرے ملکوں میں تو کئی فی صد قیمتیں بڑھی ہیں۔ ہم نے صرف 22 فیصد بڑھائی ہیں۔
22 کروڑ کے دلوں میں یقیناً خوشی کی لہر دوڑ گئی ہوگی کہ وزیر اعظم کو ہماری پریشانی سے دلچسپی ہے۔ ایک شاپنگ مال ہے جہاں ضرورت کی ہر چیز دستیاب ہے۔ ماہانہ 5 ہزار آمدنی والا ہو۔ دس ہزار والا۔ چالیس ہزار والا۔ ایک لاکھ یا اس سے زیادہ والا۔ سب سے یکساں سلوک ہوتا ہے۔ آٹا، چاول، چائے، گوشت، گھی سب کو اسی قیمت پر ملتا ہے۔
کہیں ایسا انتظام نہیں ہے کہ کم آمدنی والوں کو اشیائے ضروریہ نسبتاً کم قیمت پر مل سکیں۔ ان کی آمدنی اور اخراجات میں فاصلے بڑھتے نہ چلے جائیں۔وزیر اعظم وزیر خزانہ اور دیگر سرکاری شخصیات مہنگائی کو عالمی منظر نامہ کہہ کر ہمیں عالمی شہری ہونے کا اعزاز دے رہی ہیں۔ پھر ہمیں فی صد کے رنگین غبارے دے کر بہلایا جاتا ہے۔ شوہر بیوی کو بھی جب فی صد کا فلسفہ بتاتا ہے تو وہ کہتی ہے کہ پھر یہ چولہا فی صد سے روشن کرلو۔
زندہ رہنے کیلئے جو اشیا ضروری ہیں، قیمتیں ان ہی کی بڑھ رہی ہیں۔ حکومت جن کی وجہ سے بنتی ہے وہی اکثریت مہنگائی سے سب سے زیادہ بد حال ہے۔ 22 کروڑ میں سے 5½ کروڑ تو مسلمہ طور پر غربت کی لکیر سے نیچے ہیں۔ ان کی آمدنی ماہانہ صرف 3030 روپے فی کس بتائی جارہی ہے جبکہ انتہائی بنیادی ضرورت کی چیزوں کا ماہانہ خرچہ 35ہزار روپے کہا جارہا ہے۔ اندازہ کرلیں کہ 32 ہزار کا خسارہ پورا کرنے کیلئے یہ 5½ کروڑ کیا کرتے ہوں گے؟ غربت کی لکیر سے اوپر والوں کی اوسط آمدنی بھی 15ہزار روپے فی کس ماہانہ بتائی جارہی ہے۔
انہیں بھی مطلوبہ 20ہزار کے لئے رات دن بھاگ دوڑ کرنا پڑتی ہے۔ اس طرح سماجی برائیاں بھی جنم لیتی ہیں۔ مہنگائی کو عالمی منظر نامہ بتانے والے یہ نہیں بتاتے کہ دوسرے ملکوں میں فی کس آمدنی کتنی ہے۔ کرنسی کی قدر کتنی مستحکم ہے۔ بنیادی ضرورت کی اشیا کی رسد اور فراہمی کتنی منظم ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے کتنے اچھے انتظامات ہیں؟ ماہرینِ معیشت سرپلس اور خسارے کے اعداد و شُمار میں الجھاتے ہیں۔ کسی کلاس روم میں تو یہ جادوگری کام چلاتی ہے کہ طالب علموں نے رٹا لگانا ہے۔ امتحان پاس کرنا ہے گھر نہیں چلانا۔ دس پندرہ افراد کی کفالت نہیں کرنی۔
حکمران آرہے ہیں جارہے ہیں۔ گھروں میں دولت کی ریل پیل ہے۔ قیمتیں سو فی صد بڑھیں ، دو سو فی صد ان کی قوت خرید کم نہیں ہوتی۔ وہ تو جیتے جاگتے انسان خرید لیتے ہیں۔ وہ کبھی فکر نہیں کرتے کہ بندۂ مزدور کے اوقات کتنے تلخ ہیں۔ لاہور سے کوئٹہ تک عام پاکستانی کو صرف ضرورت کی اشیاء خریدنے میں مشکل نہیں ہے۔ گھر سے دفتر یا کارخانے جانے کیلئے بھی جیب ساتھ نہیں دیتی۔ کئی کئی منی بسیں بدلنی ہیں۔ لوکل ریلوے نہیں ہے۔ گورنمنٹ ٹرانسپورٹ نہیں ہے۔
پیٹرول کی قیمتیں دوسرے ملکوں میں یقیناً بڑھ رہی ہوں گی لیکن وہاں لاکھوں افراد کو ایک مقام سے دوسرے مقام پر پہنچانے والا ماس ٹرانزٹ سسٹم موجود ہے۔ عالمی منظر نامے میں یورپ کے اکثر ملکوں میں سوشل سیکورٹی ہے۔ بے روزگاری الائونس ہے۔ آرام دہ پبلک ٹرانسپورٹ ہے۔ علاج معالجے کے لئے انشورنس ہے۔ دکانوں اور شاپنگ مالز پر مقرر کردہ قیمتیں وصول کی جاتی ہیں۔ من مانی نہیں۔ دکانداروں، اسٹور مالکان میں منافع کی ہوس نہیں۔
ہم وطنوں کی مجبوریوں سے فائدہ نہیں اٹھایا جاتا۔ یورپ ہی نہیں ایشیا کے ملکوں میں بھی ایسے سسٹم بتدریج قائم کرلئے گئے ہیں کہ افراط زر کا دبائو ہو یا قوتِ خرید کا مسئلہ ہو تو وہ حکومت اور رعایا کو بے بس نہیں کردیتا۔ حکومتیں بھی اس دکھ درد میں شریک ہوتی ہیں۔ عوام بھی ایسے طریقے اختیار کرتے ہیں کہ مہنگائی خود کمزور پڑ جاتی ہے۔ حکمراں محلات میں نہیں رہتے جرمنی جیسے امیر ملک کی چانسلر نے حکمرانی کے 16 سال ایک فلیٹ میں گزار دیے۔
افراطِ زر کے اسباب میں آبادی میں اضافہ، آمدنی میں اضافہ، ترقیاتی کاموں میں خسارے کی مالیات، کرنسی کی سپلائی میں اضافہ، زرعی پیداوار میں کمی، صنعتی پیداوار کا ضرورت کے مطابق نہ ہونا، درآمدات مہنگے داموں منگوانا اور ڈالر کی قیمت میں اضافہ بتائے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ سب کچھ ہورہا ہے۔ ان اسباب کو روکنے کے لئے کوئی سرگرمی دکھائی نہیں دیتی۔ زرعی ملک ہے لیکن اپنی ضرورت کا غلّہ پیدا نہیں کر پارہے۔ صنعتی کارخانے ہیں۔ وہ اپنی ضرورت کی مصنوعات تیار نہیں کررہے۔
بہت سے کارخانے بجلی، گیس اورپانی کی فراہمی باقاعدہ نہ ہونے کے باعث بند ہوگئے ہیں یا ان کی جگہ شاپنگ مال قائم کردیے گئے ہیں۔ حکومت نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا نہ معاشرے نے کوئی مزاحمت کی۔ افراطِ زر کے نتائج بتائے جاتے ہیں کہ جن کو بالمقطع تنخواہیں۔ یعنی مقررہ تنخواہیں ملتی ہیں۔ کسی الائونس اور مراعات کے بغیر، سب سے زیادہ برا حال ان کا ہوتا ہے۔ پاکستان میں ان ہی کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ آمدنی اور دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم بڑھ جاتی ہے۔ وطن عزیز میں اس کے مظاہر عام دیکھے جا سکتے ہیں۔
ملک میں بچت کی عادت کم ہو جاتی ہے بلکہ عمر بھر کی بچت ضروری اشیا کی خریداری کی نذر ہو جاتی ہے۔ تجارت اور ادائیگی میں توازن نہیں رہتا۔ سود کی شرح میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ صارفین کے لئے ضروری چیزیں ان کی قوت خرید سے کہیں زیادہ ہو جاتی ہیں۔ سماجی برائیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ معیار زندگی گرتا رہتا ہے۔ غریب محنت کشوں کے لئے زندگی مشکل ترین ہو جاتی ہے۔ یہ سب کچھ واہگہ سے گوادر تک ہورہا ہے۔
جہاں کچھ روایات باقی ہیں۔ خیال ہم نفساں ہے وہاں تو کچھ غم خواری ہوجاتی ہے۔ ایسے غریب اور مجبور ملک میں آزاد مارکیٹ کے تجربے اور زیادہ سماجی دوریاں پیدا کرتے ہیں۔امیر ملکوں کی طرح چیزیں خریدنے کا آن لائن رجحان بڑھ رہا ہے۔ کفایت شعاری کی بجائے کچن کو تالا لگانے اور ہر وقت پکا پکایا کھانا منگوانے کی تبلیغ کی جارہی ہے۔
کارخانے گراکر شاپنگ مال بنائے جارہے ہیں۔ جہاں بدیشی مصنوعات بھری پڑی ہیں۔قیمتیں کنٹرول کرنے میں وفاق اور صوبوں میں ہم آہنگی ہونی چاہئے۔ ہر وقت کی محاذ آرائی بھی سماجی استحکام نہیں ہونے دیتی۔ مہنگائی کم کرنے کے لئے حکومت کی ٹیمیں زیادہ حرکت میں نہیں آتیں کیونکہ مہنگی چیزیں بیچ کر زیادہ منافع کی ہوس رکھنے والے ہی تو حکومت میں حصّے دار ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔