بلاگ
Time 13 اکتوبر ، 2021

ڈاکٹر عبدالقدیر سے یادگار ملاقات

ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے جب میں ملنے آیا تو میں یہ سمجھ کر آیا تھا کہ شاید لاہور ہائی کورٹ کا جو فیصلہ ہےاُس کے تحت وہ ایک آزاد شہری ہوں گے لیکن اسلام آباد میں واقع اُن کی رہائش گاہ پہنچا تو مجھے جون ایلیا کا وہ شعر یاد آگیا:؎

اب جو رشتوں میں بندھا ہوں تو کھلا ہے مجھ پر

کب پرند اُڑ نہیں پاتے ہیں پروں کے ہوتے

یہ کوئی دس سال پُرانی بات ہے جب میں ایک نجی چینل پر پروگرام کرتا تھا اور کئی یادگار انٹرویو کئے مگر جو مشکل مجھے ڈاکٹر صاحب سے ملنے اور انٹرویو کرنے میں پیش آئی کسی اور میں نہیں آئی۔ گھر سے کچھ فاصلے پر گاڑی روکی۔ ’’سر کہاں جارہے ہیں‘‘۔ ایک سادہ لباس والے نے پوچھا۔

’’بھائی ، ڈاکٹر صاحب سے ملنے جارہا ہوں۔ آ پ کو پیغام مل گیا ہوگا‘‘۔ پھر گیٹ کے باہر بھی اسی قسم کے سوال جواب۔ ڈاکٹر صاحب نے استقبال کیا اور انٹرویو اُن کے اسٹڈی روم میں کوئی دو گھنٹے جاری رہا۔

ختم ہوا تو کچھ ’’آف دی ریکارڈ‘‘ بھی گفتگو ہوئی۔ جاتے ہوئے کہنے لگے،’’واپسی میں بھی سوالات ہوں گے۔ ’’ایسا کرو کیسٹ یہیں چھوڑ جاؤ میں اپنی گاڑی میں پہنچا دیتا ہوں‘‘۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ باقی باتیں پھر کبھی اُس یادگار انٹرویو کے اقتباسات حاضر ہیں۔

س:ڈاکٹر صاحب، پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کی کہانی کہاں سے شروع ہوتی ہے؟

اے کیو خان: دیکھئے اصل کہانی تو 18مئی 1974 سے سمجھ لیجئے۔ اس سے پہلے جب 1971 میں پاکستان کا ایک حصہ ہم سے جدا ہواتو میں اُس وقت بلجیئم میں تھا۔

16دسمبر 1971کو میں بہت رویا کچھ دن کھانا بھی نہیں کھا سکا۔ وقت کے ساتھ ساتھ زخم تو مندمل ہوگیا لیکن وہ درد ہمیشہ قائم رہا۔ میں پھر ہالینڈ چلا گیا اور وہاں جس کمپنی میں کام کیا وہ جدید ٹیکنالوجی سے مزین تھی اور 1972سے افزدوگی پر کام کررہی تھی۔

18مئی 1974 کو بھارت نے ایٹمی دھماکہ کر دیا۔ مغربی ممالک نے زبانی جمع خرچ کی طرح کا ردعمل کا اظہار کیا اور تاثر دیا جو ہوگیا سو ہوگیا۔

البتہ ایک شخص تھا جو اس دھماکے سے پہلے ہمیں بھی اور دنیا کو بھی اپنے بیانات کے ذریعے احساس دلا رہا تھا کہ بھارت ایٹم بم بنا رہا ہے مگر کسی نے دھیان نہیں دیا وہ تھا ذوالفقار علی بھٹو۔ میں نے بھٹو صاحب کو خط لکھا اور واضح کیا کہ اگر ہم نے کچھ نہیں کیا تو اللّٰہ نہ کرے دس سال میں پاکستان کی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی۔

میں آپ کی مدد کرنے کو تیار ہوں۔میں حیران ہوا جب انہوں نے میرے خط کا نہ صرف جواب دیا بلکہ مجھے فوراً پاکستان آنے کو کہا۔ میں پہلی بار کراچی میں اُن سے ملا۔ میری والدہ اور بہن بھائی سب کراچی میں تھے۔

میں نے اُنہیں بتایا کہ ہم اِس پروگرام پر کام کرسکتے ہیں۔ بھٹو صاحب نے کہا ڈاکٹر صاحب ہم فرانس سے معاہدہ کرنے والے ہیں اور وہی پروسیسنگ پلانٹ کے ذریعے اُس کا ایندھن نکالیں گے۔ میں نے کہا جس نے بھی آپ کو یہ پلان دیا ہے وہ غلط ہے۔ میں نے جب ان کو اصل حقیقت بتائی تو ان کے کان کھڑے ہوئے اور وہ پریشان ہوگئے۔

میں نے کہا آپ ری پراسیسنگ پلانٹ خریدنا چاہ رہے ہیں وہ بھی آئی اے اے کی زیرنگرانی ہوگا اور فرانس کے انجینئرز تعینات ہوں گے۔ آپ پریشان نہ ہوں ہم یہ کام یہاں کرسکتے ہیں۔ اس کے لئے کام شروع کر دیں میں آتا جاتا رہوں گا اور جو مدددرکار ہو گی کروں گا۔

میں واپس چلا گیا اور جنوری 1975 یعنی ایک سال بعد واپس آیا تو بھٹو صاحب سے ایک اور ملاقات ہوئی۔ انہوں نے مجھ سے درخواست کی کہ واپس نہ جاؤں۔ ’’دیکھئے آپ نے خود کہا ہے کہ ملک کےحالات خراب ہیں اور ہمیں آپ کی ضرورت ہے‘‘۔

میں نے کہا ٹھیک ہے مگر مجھے اپنی بیگم سے مشورہ کرنا ہے۔ میں نے اہلیہ سے پوچھا جس کا تعلق ہالینڈ سے ہے وہاں اُن کے ضعیف والدین تھےاوروہ اُن کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ میرے پوچھنے پر کہنے لگی ’’کیا باتیں کر رہے ہو۔ ہم یہاں چھٹی پر آئے ہیں، وہاں اتنی اچھی نوکری ہے، تمہاری اچھی تنخواہ ہے بچوں کی تعلیم ہے۔‘‘

میں نے یہ سنا تو کہا ٹھیک ہے ہم واپس جارہے ہیں تو اچانک اُس کی آواز بلند ہوئی ’’Hold on on let me solve it‘‘ پھر میرا ہاتھ پکڑ کر کہا ’’دیکھو تم نے آج تک مجھ سے کوئی بات جھوٹ نہیں کہی اور مجھے تم پر فخر ہے کہ ایک تم نے ہمیشہ ضرورت مندوں کی مدد کی ہے اور دوسرے جھوٹ نہیں بولا۔

اب ایمانداری سے بتاؤ اگر ہم یہاں رک جائیں تو کیا تم پاکستان کے لئے کچھ کر پاؤگے کوئی اچھا کام‘‘۔ میں نے کہا ایمانداری سے بتا رہا ہوں یہ کام میرے سوا کوئی نہیں کرسکتا ۔ اُس نے پُراعتماد طریقہ سے کہا ۔ ’’ٹھیک ہے پھر ہم نہیں جاتے‘‘۔

سوال : تو اس پروگرام میں آ پ کو بیگم کی مکمل حمایت رہی؟

اے کیو خان: جی ہاں۔ وہ سچ میں میری قوت بنیں۔ کہنے لگیں ، ’’ٹھیک ہےمیں واپس جاتی ہوں اور اپنے والد کو سمجھاتی ہوں‘‘۔

سچ کہوں اگر اُس کی سپورٹ نہ ہوتی تو میرے لئے بڑی مشکل صورت حال پیدا ہو جاتی۔ بعد میں مشرف نے جو کچھ کیا اُس سے وہ بہت مایوس تھی۔ وہ دو ماہ کے لئے واپس گئی اور اپنے والد کو سمجھا کر واپس آگئی۔

شروع کا وقت بہت مشکل تھا۔ رہنے کی جگہ نہیں تھی۔ ایک چھوٹا سا گھر کرائے پر لیا نہ پردے تھے نہ فرنیچر۔ بہرحال کام شروع کیا۔ صبح سات بجے جاتا اور رات آٹھ بجے تک واپسی ہوتی۔ چار پانچ دوستوں سے مل کر کام شروع کیا جن میں ایک کھوکھر بھی تھا۔

لاہور کا پڑھا ہوامیکینکل انجینئر۔ ہالینڈ سے ٹریننگ بھی لی تھی مگر ذرا کھسکا ہوا تھا۔ ہر وقت کسی نا کسی سے لڑتا رہتا پر میری بہت عزت کرتا ۔پھر کچھ رکاوٹیں آنا شروع ہوئیں۔

ایک سوئی کے لئے بھی منیر احمد خان کی اجازت لینی پڑتی تھی۔ مجھے مشیر کے طور پر رکھا گیا تھا۔ اور اس وقت میری تنخواہ تین ہزار روپے تھی۔ جو پہلی بار چھ ماہ بعد ملی۔ میری عادت تھی تیزکام کرنے کی یہاں بہت تاخیر یا دیر لگتی تھی ہر کام میں۔

آخر کار تنگ آکر میں نے منیر صاحب کی لکھ کر شکایت کی کہ جس آدمی کو آپ نے انچارج بنا کر بھیجا ہے اُسے کچھ نہیں آتا۔

مجھے اُن کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا جس سے مایوس ہوکر میں نے بھٹو صاحب کو خط لکھ کر ساری بات بتائی۔

بس یوں سمجھ لیں کہ جیسے پوری حکومتی مشینری میں آگ سی لگ گئی ہو۔ دوسرے ہی دن جنرل امتیاز کا فون آیا کہ آپ لاہور واپس آجائیں۔ (جاری ہے)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔