14 اکتوبر ، 2021
سندھ ہائیکورٹ کا کہنا ہے کہ لاڑکانہ میں کاروکاری ہے، بے امنی ہے اور ڈاکو راج ہے، کوئی اچھا ڈاکٹر وہاں جا کر کیوں رہے گا۔
این آئی سی وی ڈی میں مبینہ کرپشن سے متعلق دائر درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس صلاح الدین پنہورنے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ محکمہ صحت سندھ کا حال یہ ہے تمام اسپتال آؤٹ سورس کر رہے ہیں، کیا دوسرے صوبوں میں بھی ایسا ہوتا ہے؟
جسٹس صلاح الدین پنہور نے استفسار کیا کہ این آئی سی وی ڈی کے معاملات کب ٹھیک کریں گے؟ اب تک ڈائریکٹرز کا تقرر کیوں نہیں ہوا؟ آپ ڈاکٹر باری کو اسپتال کا کنٹرول کیوں نہیں دے دیتے؟
ممبر بورڈ آف گورنرز این آئی سی وی ڈی کا کہنا تھا اگر کنٹرول دینا ہو تو ڈاکٹر ادیب رضوی کو دے سکتے ہیں، جس پر جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کہ یہ تو اور بھی اچھی بات ہے، ڈاکٹر ادیب رضوی کو دیدیں کنٹرول۔
سیکرٹری صحت نے عدالت کو بتایا کہ تقرری کا عمل شروع ہوگیا ہے، ہمیں 3 ماہ کا وقت دیں پالیسی فیصلہ کرنا ہے۔
عدالت نے کہا کہ کس بات کا پالیسی فیصلہ؟ جب این آئی سی وی ڈی ایکٹ موجود ہے، اگر سرکاری اسپتال اس قابل ہوتے تو پرائیویٹ اسپتال نہ کھلتے، چھوٹے شہروں میں نجی اسپتالوں کی بھرمار ہے۔
عدالت نے کہا کہ آپ قانون کی با لا دستی کی بات کرتے ہیں تو ہر چیز میں قانون کی عمل داری قائم کریں، سیکرٹری صاحب بتائیں 3 ماہ میں معاملات کیسے ٹھیک کریں گے؟
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ این آئی سی وی ڈی کا 5 سال کا آڈٹ کروا لیا جائے تو حقائق سامنے آجائیں گے جس پر این آئی سی وی ڈی کے وکیل نے جواب دیا کہ آڈیٹر جنرل کی آڈٹ رپورٹ موجود ہے۔ درخواست گزار کے وکیل ملک نعیم نے کہا کہ تھرڈ پارٹی سے این آئی سی وی ڈی کا فارنزک آڈٹ کروایا جائے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ سیکرٹری صاحب اچھا قابل ڈاکٹر لاڑکانہ کیوں جائے گا؟ وہاں کاروکاری ہے، ڈاکو راج ہے، بے امنی ہے کوئی وہاں جاکر کیوں رہے گا؟
جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ قابل ڈاکٹروں کو قائل کریں اور اچھے لوگوں کو لے کر جائیں، آپ ڈاکٹرز کو اچھا پیکیج کیوں نہیں دیتے؟
سیکریٹری صحت نے بتایا کہ این آئی سی وی ڈی کا بوڑد کراچی کے معاملات دیکھتا ہے، اندرون سندھ کے یونٹس کیلئے ایس آئی وی سی ڈی الگ بنایا گیا ہے، جس پر عدالت نے پوچھا کہ جب سربراہ اور ممبرز ایک ہیں تو بورڈ الگ کیوں ہے؟ عدالت نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر ندیم قمر دونوں بورڈز میں کیسے ہوسکتے ہیں؟