15 اکتوبر ، 2021
مجھے بڑے لوگوں کے کارناموں سے زیادہ ان کی شخصیت پر غور کرنا زیادہ اچھا لگتا ہے۔ کارنامے ساری دنیا دیکھتی ہے لیکن شخصیت کسی کسی پر ظاہرہوتی ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کے لئے جو کارنامہ انجام دیا وہ سب کے سامنے ہے کیونکہ ہمارا میڈیا کارناموں ہی کو سب کچھ سمجھتا ہے۔ اگر ہمارا میڈیا بڑے لوگوں کی شخصیت کے مخفی پہلوؤں پر روشنی ڈالے تو ناخدائوں کی خدائی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
انہیں اپنا قد چھوٹا محسوس ہونے لگتا ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ کل یہی شخص ان کی جگہ لے لے گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں جونہی کسی شخصیت پر قوم کا اتفاق ہونے لگتا ہے، وہیں اسے متنازعہ بنا دیا جاتا ہے۔ ہمارے محسن، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ ہمارے ہاں عام سے وزراء کا پروٹوکول دیکھ کر عام لوگ نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا پروٹوکول یہ تھا کہ انہیں دیکھ کر شہری احتراماً کھڑے ہو جاتے تھے۔ ان سے ہاتھ ملاتے اور نہیں تو نظریں ملا کر ہی خوش ہو جاتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب ان سائنس دانوں میں سے نہیں تھے جو دو جمع دو چار پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ ان لوگوں میں شامل تھے جو سکوت لالہ و گل سے کلام کرتے ہیں۔ شعر و سخن ان کی گھٹی میں پڑا تھا۔ ان کے کالموں میں کلاسیکی شاعروں کے ساتھ ساتھ جدید شاعروں کے اشعار پڑھنے کو ملتے تھے۔ غالب، مومن، مصحفی، جگر، جوش، اقبال، مجاز، اختر شیرانی، فیض، عدم اور فراز کی شاعری کے وہ رسیا تھے۔ وہ چونکہسخن شناس تھے اس لئے کسی ایک شاعر کی شاعری کے اسیر ہو کر نہیں رہے۔ کہتے تھے کہ ہر شاعر کی دو چار غزلیں یا نظمیں ایسی ضرور ہوتی ہیں جو مجھے پسند آتی ہیں۔
سائنس کے بیش تر لوگ، کسی شاعر کا شعر لکھتے ہوئے ناانصافی کر جاتے ہیں۔ لفظوں کو یوں آگے پیچھے کرتے ہیں کہ آسودئہ خاک شاعر کی روح تڑپنے لگتی ہے لیکن ہمارے ڈاکٹر صاحب نے شاعروں کی روحوں کو کبھی نہیں تڑپایا۔ مجھے ان کے گھر جانے کا موقع نہیں ملا لیکن جو احباب ان کے در دولت پر جاتے رہتے تھے، وہ بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کے اردگرد ہر وقت شاعری کی کتابیں دھری رہتی تھیں۔ سوانح عمریاں وہ شوق سے پڑھتے تھے۔ لوگ انہیں اپنی کتابیں تحفتاً بھیجتے تو ان کی باقاعدہ رسید دیتے۔
کبھی کالم میں تبصرہ کرکے، کبھی خط لکھ کر، ایک بار وہ لاہور کے فائیواسٹار ہوٹل میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں آئے تولوگوں کا حصار توڑ کر میں اسٹیج پر ڈاکٹر صاحب کے پاس جا پہنچا اور اپنا لکھا ہوا عمرے کا سفرنامہ ’’پہلی پیشی‘‘ انہیں پیش کر دیا۔ جب ساری تقریریں ہو گئیں تو ڈاکٹر صاحب کی باری آئی۔ انہوں نے میری کتاب کی رسید وہیں دے دی۔ وہ کتاب کی ورق گردانی کر چکے تھے۔ سو تحسینی کلمات کہنے میں دیر نہ لگائی۔ کتابیں ان کی تنہائی کی دوست تھیں۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص شاعری کا ذوق رکھتا ہو، موسیقی سے دور رہے؟ ڈاکٹر صاحب اقبال بانو، منی بیگم، عابدہ پروین، ملکہ پکھراج اور غلام علی جیسے گلوکاروں کے عاشق تھے۔ حسرت موہانی کی غزل جو غلام علی نے گائی تھی، ڈاکٹر صاحب کی پسندیدہ غزل تھی۔ کیوں نہ ہوتی؟ ڈاکٹر صاحب بھی تو برسوں سے چپکے چپکے رات دن آنسو بہاتے رہے تھے۔
28 مئی 1998کو بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے بھی دھماکے کر دیئے تو ڈاکٹر صاحب کی نیک نامی اور شہرت کا گراف یک دم بلندیوں کو چھونے لگا۔ غیر کیاہمارے کچھ اپنوں کو یہ بات ایک آنکھ نہ بھائی۔ طعنہ زنی ہوئی،الزام لگے۔ ڈاکٹر صاحب بجا طور پر سمجھتے تھے کہ ایٹمی توانائی کو استعمال کرکے ملک کو اندھیروں سے نکالا جا سکتا ہے لیکن وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ دروغ گو حکمرانوں کی موجودگی میں ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔
ان کے اندر ایک غصہ پایا جاتا تھا۔ جب ان سے پوچھا جاتا کہ کیا آپ پاکستانی قوم سے ناراض ہیں؟ وہ کہتے کہ میں احسان فراموش اور نمک حرام لوگوں سے ناراض ہوں۔ عام پاکستانیوں سے مجھے پیار ہے۔ وہ بھی مجھے پیار کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے دل میں ہمیشہ یہ پچھتاوا رہا کہ سائنس کی طرف آنے کی بجائے وہ پروفیسر کیوں نہ بن گئے؟ کتابیں پڑھتے، کتابیں لکھتے، مزے کی زندگی گزارتے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب! آپ اگرپروفیسر بن جاتے تو میں آپ کے بارے میں یہ تحریر شاید کبھی نہ لکھتا۔ پروفیسر تو ہزاروں ہیں لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک ہی ہے۔
آخر میں ڈاکٹر صاحب کیلئے دو تازہ شعر؎
اک آہنی انسان بنایا تھا خدا نے
آیا تھا ہمیں جرم ضعیفی سے بچانے
دشمن کی نگاہوں سے وطن آج ہے محفوظ
محسن تھا ہمارا، کوئی مانے کہ نہ مانے
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔