Time 16 اکتوبر ، 2021
بلاگ

جنات، جادو اور پاکستان

پاکستانی سیاست بھی عجیب ہے۔ اس میں بعض اوقات ایسی چیزیں اہم ہوجاتی ہیں، جن کی جدید دنیا کی سیاست میں کوئی اہمیت ہی نہیں ہوتی اور بسا اوقات ایسے ایشوز منظر پر چھا جاتے ہیں کہ مہذب دنیا میں ان کا تذکرہ بھی نہیں ہوتا۔ 

ان دنوں پاکستانی سیاست میں جنات اور جادو ٹونے وغیرہ کا زیادہ ذکر ہورہا ہے چنانچہ ضروری سمجھا کہ اس حوالے سے چند بنیادی حقائق سامنے رکھ دوں تاکہ قوم مزید توہمات میں مبتلا نہ ہو۔

جنات کی حقیقت : اسلامی عقیدے کے مطابق ایسی نظر نہ آنے والی مخلوق، جس کی تخلیق آگ سے ہوئی ہے، کو جنات کہتے ہیں اور لفظی معنی چھپی ہوئی مخلوق کے ہیں۔ جنوں کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مختلف قسم کے روپ بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ قرآن و حدیث میں جنات کا ذکر آیا ہے۔ 

قرآن شریف میں جنات کے نام پر ایک پوری سورۃ”سورۃ جن“ موجود ہے۔ جس کی ابتدا اس آیت سے ہوتی ہے کہ جنہوں نے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن پڑھتے سنا اور اسے عجیب و غریب پایا تو اپنے ساتھیوں کو بتایا اور وہ مسلمان ہو گئے۔

ابلیس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ جنوں میں سے تھا۔ چنانچہ جب اسے حضرت آدم کو سجدہ کرنے کے لیے کہا گیا تو اس نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ میں آگ سے پیدا ہوا ہوں اور آدم مٹی سے۔

جادو کی حقیقت اور شرعی حیثیت: جادو ٹونہ کرنے والے کو جادوگر کہتے ہیں۔ جادو دین میں ہلاکت لانے والے کئی امور کا جامع ہے مثلا جنّوں اور شیطانوں سے مدد طلب کرنا، غیر اللّٰہ سے ڈرنا، اللّٰہ پر توکل نہ کرنا اور لوگوں کے مفادات و ذرائع معاش کو تباہ کرنے کے درپے ہونا وغیرہ۔ جب یہ جادو ٹونہ ریاست یا حکومت کے معاملات میں دخیل ہوجائے تو ملک و قوم کی تباہی کابھی ذریعہ بنتا ہے۔ 

اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: وہ ان سے وہ ( جادو ) سیکھتے ہیں جس کے ذریعے وہ میاں بیوی کے مابین تفریق و علیحدگی پیدا کر دیتے ہیں۔

جادوگر تمام لوگوں سے زیادہ خبیث، طبعی طور پر سب سے بڑا فساد انگیز اور سب سے زیادہ تاریک دل والا ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف یہ کہ شیطان کے قریب ترین ہوتا ہے بلکہ وہ شیطان کا پجاری، خیر و بھلائی سے راہ فرار اختیار کرنے والا، معاشرے سے بلاوجہ انتقام لینے والا اور انتہائی بدترین خصلتوں کا حامل ہوتا ہے اور وہ اپنے پاس آنے والوں کو جعلی و خود ساختہ خبریں دے دے کر کذب بیانی و دروغ گوئی کرتا رہتا ہے۔ 

نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے :شیطان اس جادو گر کاہن کی زبان پر وہ جھوٹ چڑھا دیتا ہے اور وہ اس کے ساتھ مزید سو جھوٹ ملا کر بکتا چلا جاتا ہے۔

جادو گر کا سحر و جادو اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک کہ وہ عظمت والے اللّٰہ کے ساتھ کفر نہ کرے۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے :جس نے جادو کیا اس نے شرک کیا۔ 

جادو گر مال سے انتہائی محبت کرتا ہے اور اسے کمانے کے لیے سادہ لوح لوگوں کو دھوکا و فریب دیتا ہے۔ جب فرعون نے جادوگروں سے مطالبہ کیا کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ کریں تو انھوں نے بھی اس سے مال کا مطالبہ کیا تھا۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے اس واقعہ کی خبر دیتے ہوئے فرمایا :جادوگر فرعون کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اگر ہم غلبہ پا گئے تو ہمیں صلہ ( مال ) عطا کیا جائے، اس (فرعون ) نے کہا : ہاں ( اس کے علاوہ ) تم مقربوں میں داخل کر لئے جاؤ گے۔

جادو کرنے والا دوسرے کے ساتھ مکر و فریب کرتا اور انہیں شرک کی طرف دعوت دیتا ہے۔ وہ اپنے پاس آنے والوں کو غیر اللّٰہ کے نام پرجانور ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے۔ جادو گر لوگوں کو یہ دھوکا دیتا اور انہیں اس وہم میں مبتلا کرتا ہے کہ وہ اپنے پاس آنے والوں کے بارے میں یہ جانتا ہے کہ وہ کن امراض و بیماریوں میں مبتلا ہیں اور انہیں کس طرح کے مسائل کا سامنا ہے تاکہ ان کا دل اس سے جڑ جائے اور اپنے پاس آنے والوں کو یہ دھوکا بھی دیتا ہے کہ وہ ان امراض و اسقام کو دور کرنے والی آیات قرآنی پر مشتمل طلسم بھی جانتا ہے۔

کتنے ہی لوگ ایسے ہیں کہ انہیں ان جادوگروں نے دین سے نکال باہر کیا ہے کیونکہ وہ ان کی دی ہوئی غیبی خبر کی تصدیق کر دیتے ہیں حالانکہ غیب کو اللّٰہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ 

چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے :جو کسی عراف و جادوگر یا کاہن کے پاس آیا اور اس نے اس سے کوئی بات پوچھی اور اس کے جواب کو سچا سمجھا اور تصدیق کی اس نے نبی اکرم ﷺ پر نازل شدہ دین و شریعت کے ساتھ کفر کا ارتکاب کیا۔جادو اور سحر کے اثرات سے بچنے کے لئے علمائے کرام تجویز کرتے ہیں کہ اس آیت کی بار بار تلاوت کی جائے۔

لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین۔ ترجمہ: تیرے سوا کوئی معبود (برحق) نہیں تو پاک ہے (اور ) بیشک میں قصور وار لوگوں میں سے ہوں۔ رسول اکرمﷺ کا ارشاد ہے :جو مسلمان شخص بھی یہ دعا مانگے گا اللّٰہ اس کی دعا ضرور قبول کرے گا۔

قرآن کریم کی آخری دو سورتیں معوذتین کا پڑھنا بھی جادو کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ اسی سلسلہ میں نبی اکرم ﷺ نے حضرت عقبہ بن عامرؓ سے مخاطب ہوکر فرمایا تھا :ان دونوں سورتوں (معوذتین ) کے ساتھ اللّٰہ کی پناہ حاصل کیا کرو۔ ان جیسی دوسری کوئی چیز کسی پناہ مانگنے والے کو حاصل نہیں۔ ابن قیم لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کو ان دو سورتوں کے ذریعے اللّٰہ کی پناہ حاصل کرنے کی ضرورت سانس لینے، کھانے پینے اور لباس پہننے کی ضرورت سے بھی زیادہ ہے۔ جادو کے اثرات سے بچنے کے لئے سورۃ البقرہ کی آخری دو آیتوں کی تلاوت کی فضیلت بھی بیان کی گئی ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔