بلاگ
Time 17 اکتوبر ، 2021

لنڈی کوتل کی لالٹین اور پولیس مقابلے

ہماری پہلی ملاقات کب ہوئی ٹھیک سے یاد نہیں لیکن اتنا پتہ ہے کہ سجاد اظہرسے تفصیلی تعارف عامر رانا کے ساتھ نشستوں کے دوران ہوا ۔ سجاد مختلف قومی اخبارات کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔ تجزیات نامی تحقیقی مجلے کی ادارت بھی کرچکے ہیں۔

 ایک عرصہ امریکہ میں بھی رہے مگروہاں بھی دل نہ لگا تو وطن واپس لوٹ آئے ۔ صاحب مطالعہ وتجربہ ہونے کے باعث ان سے جب بھی ملاقات ہوئی ہمیشہ سیکھنے کو ملا۔ ہم سال 2014-15 سے تواترکیساتھ مل رہے ہیں مگر انہوں نے کبھی شائبہ تک نہ ہونے دیا کہ ان کے اندر ایک شاعر بھی چھپا بیٹھا ہے۔

 حال ہی میں پتہ چلا کہ سجاد اظہر کی مختصر نظموں کی کتاب لنڈی کوتل کی لالٹین شائع ہوئی ہے۔ کتاب ہاتھ لگی تو انکی نظموں میں ایسا کھویا کہ کتاب مکمل کرکے ہی اٹھا۔میرے لئے حیرت کی بات یہ تھی کہ سجاد اظہر نے معاشرے اور سیاسی ماحول کے تضادات پر صرف شائستہ مزاحمت کا انداز ہی نہیں اپنایا بلکہ صدیوں کے تغیر کو خوبصورت مختصرنظموں کی شکل بھی دی۔ ان کی نظم ’’ہم قرنطینہ میں ہیں‘‘ میری پسندیدہ ترین نظموں میں سے ایک ہے۔

جس روز کاغذ ایجاد ہوا تھا

اس روز دنیا سے اعتبار اٹھ گیا تھا

لوگ اب روایتوں کی بجائے

لکھے ہوئے مستند حوالے مانگتے تھے

آٹے کے بدلے کپڑا نہیں دیتے تھے

بدلے میں روپیہ مانگتے تھے

نیکی کو دریا میں ڈالنے کے بجائے

اس کا دام طلب کیا جاتا تھا

اور جو دام نہیں دے سکتا تھا

اس کا لاک ڈان کردیا جاتا تھا

حد تو یہ بھی تھی کہ سب عبادتیں بھی

کاغذ کی محتاج کردی گئی تھیں

اس سے پہلے کہ کاغذی انسان

خدا کی حیثیت بھِی کاغذی کردیتا

خدا نے فیصلہ کیا کہ وہ دنیا میں

اپنے گھر کو تالا لگا دے

اور اس کاغذی دنیا کو

قرنطینہ میں ڈال دے

سجاد اظہر نے ایک شاعر صحافی کی حیثیت سے افغانستان میں جاری المیے اور اس کے پاکستان پر اثرات کو نظم ’’لنڈی کوتل کی لالٹین ‘‘ میں خوبصورت اندازمیں پیش کیا۔ یہ محض نظم نہیں پوری تاریخ اوراس کا المیہ ہے۔

ہاتھوں میں کاغذ کی ڈگریاں تھامے

ہم نے کتنے ہی دفتروں کے پتے ازبر کر لئے

مگر نوکری نہیں ملی

لنڈی کوتل کی لالٹینوں کی روشنی میں پڑھتے پڑھتے

ہماری بینائی تو سلامت رہ گئی

مگر سونگھنے کی حس کو

لالٹینوں میں جلنے والے تیل نے متاثر کیا

جس سے ہماری سوچنے کی حس کم، سونگھنے کی تیز ہو گئی

اس زمانے میں

لنڈی کوتل سے آگے

زمینیں آگ اگل رہی تھیں

لنڈی کوتل میں بھی اب جرمنی کی لالٹینوں کی جگہ

امریکی بندوقوں کی دکانیں کھل گئی تھیں

جنہیں چلانے کی ڈگریاں

مدرسوں سے ملتی تھیں

نوکری کے لئے ہماری ڈگری تو کام نہیں آئی

البتہ آگ سونگھنے کی صلاحیت ہمیں اخباروں میں لے گئی

جہاں باقی زندگی ہم نے

آگ اگلتی سرخیاں نکالنے میں گزار دی

سجاد نے صحافت کو شاعری میں گوندھ کر ایسی نظمیں تخلیق کیں جو زمان و مقام کی قید سے آزاد ہیں۔اچھی شاعری کاکمال بھی یہی ہوتا ہے۔پوری ایمانداری سے سمجھتا ہوں کہ ان کا کام کسی طورپر بین الاقوامی معیار سے کم نہیں۔لاہور کے مایہ ناز کرائم رپورٹر احمد فراز کو دیکھیے وہ جیو نیوز جیسے متحرک ادارے سے منسلک ہوکر صبح شام جرائم کی خبروں کا تعاقب کرتے اورہمیں تازہ ترین معلومات سے آگاہ رکھتے ہیں۔

 لاہورشہر میں رہ کرکرائم رپورٹنگ جیسی مصروف ذمہ داری ادا کرناواقعی جان جوکھم کا کام ہے۔معیاری کام کے لئے ارتکازشرط اول ہے مگراس کام میں ارتکاز کہیں گم ہوجاتا ہے۔احمد فرازنے نہ صرف ارتکاز قائم رکھا بلکہ 1992 سے ابتک تمام جعلی پولیس مقابلوں کا ڈیٹا اکٹھاکرکے اسے کتابی شکل میں شائع کردیا جو ملک کے 100مشہورجعلی پولیس مقابلوں کی کہانیوں پرمبنی ہے۔ان کی تازہ کتاب کا عنوان Encounter Cops ہے۔

احمد فراز کے مطابق بعض پولیس افسر اپنی نوکری بچانے یا نام کمانے کے لئے کئی افراد کو ماورائے قانون پولیس مقابلوں میں مارنے میں ملوث ہیں۔ یہ کتاب ایسے افسر کے ناموں اور’’کارناموں‘‘ دونوں کا کچا چٹھہ کھولتی ہے۔ یہ محض ایک کرائم رپورٹر کی تحقیق نہیں بلکہ تاریخی واقعات وانکشافات پر مبنی ایک مستقل حوالہ بھی ہے جو ہرلائبریری کا حصہ ہونا چاہئے۔

اس کتاب میں سابق صدرآصف علی زرداری پر1997 میں درج ہونے والے منشیات کے جعلی مقدمے کا پس منظر لکھا گیا ہے اوربتایا گیاہےکہ مقدمے کا مدعی بننے کے لئے اس وقت کے ایس ایچ او گلبرگ اشرف چدھڑ کو کہا گیا مگر انہوں نے انکار کردیا بعدازاں اس وقت کے ایس ایچ او تھانہ نواں کوٹ لاہورعاشق مارتھ کو مدعی مقدمہ بنایا گیا اورانہیں ڈی ایس پی کے عہدے پر ترقی کا لالچ بھی دیا گیا ۔

 کتاب کے مطابق عاشق مارتھ کو 20 اپریل 2008 کو لاہورمیں ایک اشتہاری ملزم نے فائرنگ کرکے قتل کردیا۔ اس کیس کے حوالے سے ممتاز پولیس آفیسرذوالفقارچیمہ کا نام بھی لکھا گیا ہے۔کتاب میں ایک اور جگہ ذوالفقارچیمہ صاحب کے بارے میں بتایاگیا ہے کہ انہوں نے جعلی پولیس مقابلوں میں ملزمان کو مارنے کیلئے کراچی کے ایک عالم سے فتوی بھی لیا تھا۔

 احمد فراز کی کتاب ہمارے فرسودہ پولیس نظام اورجعلی پولیس مقابلوں پر ایک مقدمہ ہے۔ اس کتاب کی روشنی میں نہ صرف جعلی پولیس مقابلوں کے حوالے سے قانون سازی ہونا چاہئے بلکہ اس کارنامے پراحمد فراز کو ایوارڈ بھی دیا جانا چاہئے کوئی اورنہیں دیتا تو کم ازکم جنگ جیو کی انتظامیہ کو ہی چاہئے کہ وہ اپنے اس ہونہار رپورٹر کی حوصلہ افزائی کریں۔

حقیقت یہ ہے کہ سجاد اظہر ہوں یا احمد فراز دونوں پاکستان کے اندھیروں کو لالٹین کی روشنی سے شکست دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ دونوں کے لئے میری بےپناہ دعائیں اور محبتیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔