Time 18 اکتوبر ، 2021
بلاگ

آپ کی مرضی !

جیسے یہ یقین ہو گیا کہ موجودہ تمام سیاسی قیادت کی امامت میں اصلی جمہوریت، اصلی ووٹ کی عزت، اصلی سویلین بالادستی کی منزل پانا ناممکن، ویسے یہ یقین بھی ہوگیا کہ موجودہ تمام سیاسی قیادت ذہنی، اندرونی طور پر خودمختار، آزاد، مضبوط اداروں کے حق میں نہیں بلکہ خلاف، اداروں کے حوالے سے اپنی سیاسی قیادت کے قول وفعل کے تضاد پر بات کرنے سے پہلے یہ بات کہ کیوں مجھے یہ یقین کہ موجودہ تمام سیاسی قیادت کی امامت میں ہم اصلی جمہوریت، اصلی ووٹ، ووٹر کی عزت، اصلی سویلین بالادستی کی منزل نہیں پاسکتے۔

پہلی وجہ، تمام جماعتوں کی قیادت ذہنی طور پر جمہوری نہیں، اصلی جمہوریت کی ’ج‘ کا بھی پتا نہیں، اصلی جمہوریت انہیں چھو کر بھی نہیں گزری، یہ ذہنی، اندرونی طور پر ڈکٹیٹرز ، سویلین ڈکٹیٹر، یہ اقتدار میں آئیں تو جمہوری رستوں سے مگر اقتدار میں آکر بادشاہ بن جائیں، یہ سب جمہوریت کی ضد،یہ جمہوریت کش،یہ آئے روز جمہوریت پر حملہ آور ہوں، ان کی جمہوریت جمہورلیس، آڈٹ لیس، پرفارمنس لیس، ان کی جمہوریت اپنی ذات شریف، اپنے خاندانوں، رشہ داروں، چہیتوں،لاڈلوں، دوستوں کیلئے، ان کی جمہوریت صرف اپنوں کو انڈے،بچے دے۔

دوسری بات، یہ سب فوجی گملوں میں اُگی مخلوق یااسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں کی مرہون منت، تیسری بات، ان کی جمہوریت سرے محلوں، ایون فیلڈوں، ٹی ٹیوں، ڈیلیوں، ڈھیلوں سے لبالب بھری ہوئی۔

چوتھی بات، جمہوریت ان کے مزاجوں میں نہیں، ان کے رویوں میں نہیں، ان کی پارٹیوں میں نہیں، ہاں جمہوریت ان کی تقریروں، بیانوں، بھاشنوں میں ضرور، پانچویں بات، اصلی جمہوریت کی بنیاد ہو اصول، منطق اور  اخلاقیات پر، تمام سیاسی قیادت میں کوئی ایک بتا دیں جو اصول، منطق اور اخلاقیات پر کھڑا ہو، اب سونے پہ سہاگہ، اوپر یہ مخلوق، نیچے عوام ایسے کہ ایوب خان، ضیاء الحق توفوجی آمر، یہ تو برے، مگر ان کے پیدا کر دہ بھٹو، نواز شریف اچھے، پر ویز مشرف تو برا مگر اس سے ڈیلیں کرنے والے، اس کی ڈھیلوں سے مستفید ہونے والے بے نظیر بھٹو سے نواز شریف تک سب اچھے، مطلب بکرے کا سر حرام مگر بکرے کا دھڑ حلال۔

لہٰذا لکھ کر رکھ لیں، پاکستان کی موجودہ تمام سیاسی قیادت کی امامت میں اگلے50 سال بھی چلتے رہیں منزل تک پہنچنا ناممکن ، منزل پانا ناممکن ، باقی اگرکسی کو اس جمہور لیس جمہوریت میں چند خاندانوں کی غلامی کرنی ہے تو ست بسم اللہ۔ 

اچھا یہ بھی سنتے جائیں جب بھی جمہورلیس جمہوریت پر اعتراض کیا جائے تویار لوگ کہیں اس جمہوریت کو چلنے دیں کیونکہ اس جمہوریت کی بہتری مزید جمہوریت میں، اس جمہوریت کو باکمال بنائے گی مزید جمہوریت، چشم بددور،یہ توایسے ہی جیسے جانا لاہور ہو اور ڈرائیور پشاور لے جارہا ہو،ڈرائیور کو ٹوکنے پر جواب ملے، چپ کرو ڈرائیور کو کچھ نہ کہو، یہ ہمیں لاہور لے جائے گا، کمال ہے بھائی کمال ۔

بات لمبی ہوگئی، دوسری طرف نکل گئی، بات کر رہا تھا کہ ہماری موجودہ تمام سیاسی قیادت میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو اندر سے چاہتا ہو کہ ہمارے ادارے مضبوط ،آزاد ،خودمختار ہوں ، سب کو وہ ادارے چاہئیں جو ان کیلئے فائدہ مند ہوں، وہ ادارے چاہئیں جن کے سربراہ ان کے غلام بن کر رہیں ، ان کی مانیں۔

اگر آپ کو میری بات پر یقین نہیں آرہا تو چندمثالیں حاضرِ خدمت، ہم عدلیہ، نیب، ایف آئی اے، الیکشن کمیشن صرف چار اداروں کی بات کر لیتے ہیں، پہلے عدلیہ، یہاں پوری عدلیہ کی بات نہیں کرتے، بات لمبی ہوجائے گی، صرف سپریم کورٹ کی بات کر لیتے ہیں، اب اگر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ ہوں تو مسلم لیگ عملی طور پر سپریم کورٹ پر حملہ آور ہو جائے لیکن سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری ہوں تو مسلم لیگ سپریم کورٹ کے حق میں تحریک چلائے، اگر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ ہوں تو پی پی سپریم کورٹ کے ساتھ اور اگر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری ہوں تو پی پی کو سپریم کورٹ،عدلیہ بحالی تحریک سے کوئی غرض نہیں، اگر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری ہوں تو عمران خان کی روز سپریم کورٹ پر چڑھائیاں، لیکن سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار ہوں تو عمران خان سپریم کو رٹ کے گن گائیں۔

دوسری طرف سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثارہوں تو مسلم لیگ کی نظر میں سپریم کورٹ ڈکٹیٹر، ججزبغض وعناد سے بھرے ہوئے، نواز شریف تو ثاقب نثار کی سپریم کورٹ کے مقابلے میں اپنی عوامی عدالتیں لگالیں اور بھی درجنوں مثالیں مگر بات آگے بڑھاتے ہوئے اب نیب کی بات کر لیتے ہیں، نیب کے چیئرمین ایڈمرل سروہی ہوں تو پی پی کیلئے نیب کمال کا، قمرالزمان چوہدری چیئرمین نیب ہوں تو پی پی، مسلم لیگ دونوں کیلئے نیب اچھامگر ان دونوں چیئرمینوں کے ہوتے ہوئے عمران خان کیلئے نیب برا،ہر برائی کا گڑھ، مگر نیب کے چیئرمین جسٹس جاوید اقبال ہوں (جنہیں پی پی ،مسلم لیگ ) مل کر لائے ان کے چیئرمین بننے کے کچھ عرصہ بعد پی پی، مسلم لیگ کیلئے نیب کالے کرتوتوں والا ہوجائے،پولیٹیکل انجینئرنگ کرنے والا ہو جائے، ڈکٹیٹر کا بنایا ہوا جمہوریت کش ادارہ ہوجائے۔

لیکن جسٹس جاوید اقبال کا نیب اچانک عمران خان کو اچھا لگنے لگ جائے ، ایف آئی اے کی بات کر لیں ، بشیرمیمن ایف آئی اےکے ڈی جی ہوں تو اچانک ایف آئی اے عمران خان کیلئے برا ہوجائے، اتنا برا کہ ریٹائرمنٹ سے چند دن پہلے جبری ریٹائرکرنے کے بعد عمران حکومت بشیر میمن کی پنشن بند کردے، لیکن اپوزیشن بشیر میمن کے ساتھ کھڑی نظرآئے۔

دوسری طرف ، واجد ضیاء ایف آئی اے کے سربراہ بن جائیں تو اپوزیشن کیلئے ایف آئی اے برا جبکہ واجد ضیاء کا ایف آئی اے تحریک انصاف کیلئے اچھا۔یہاں میں الیکشن کمیشن کی صرف ایک مثال دوں گا، سردار رضا کو لانے والی اپوزیشن کیلئے سردار رضا کا الیکشن کمیشن برا ہوجائے جبکہ تحریک انصاف کیلئے اچھا، راجہ سکندر سلطان کو لانے والی تحریک انصاف کیلئے راجہ سکندر سلطان کاالیکشن کمیشن برا ہوجائے مگر اپوزیشن کیلئے اچھا، یہ چندمثالیں،جیسا پہلے کہا ایسی درجنوں نہیں بیسوؤں مثالیں اور بھی۔

مگر مجھے امیدا ن چند مثالوں سے آپ کو اتنا پتا تو چل گیا ہوگا کہ ہماری سیاسی قیادت کی نظر میں اداروں کی مضبوطی یہ کہ ادارہ ان کیلئے فائدہ مند ہو، ادارے کا سربراہ ان کا اپنا بندہ ہو، سب کی ترجیح ادارے، ادارے کے سربراہ ہمارے تابع ہوں، ہمارے فرمانبردار ہوں،بس ہماری سنیں، ہماری مانیں ، باقی دوستواگر سویلین ڈکٹیٹر ہی آپ کی جمہوریت کے امام ،اگر جمہور لیس جمہوریت آپ کو قبول،اگر ڈرامہ باز جمہوروں کے ٹوپی ڈرامے آپ کی جمہوریت کاحسن ،اگر ملک وقوم ،اداروں کو بدحال کر چکے جمہوری ڈرائیوروں کی پشاور جاتی بس میں بیٹھ کر آپ لاہور جانا چاہتے ہیں تو آپ کی مرضی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔