خاتونِ اول! ربیع الاول پر ریسرچ کرائیں

ڈاکٹر مائیکل میکارمک( 7 نومبر 1951 نیویارک، امریکا) عیسائی مذہب میں پیدا ہوئے، انہوں نے تاریخ میں بیلجیئم کی کیتھولک یونیورسٹی سے 1979 میں پی ایچ ڈی کی، امریکہ کی جان ہاپکنز یونیورسٹی میں پڑھایا، اب 1991 سے دنیا کی تیسری بڑی یونیورسٹی ہارورڈ میں تاریخ کے پروفیسر ہیں، 2002 میں مشہور کتابیں اور آرٹیکل لکھنے پر متعدد ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔

انہوں نے اینی شی ایٹیو فار دی سائنس آف ہیومین پاسٹ کے نام سے ایک چیئر (ریسرچ کرائی)بنائی، ڈاکٹر میکارمک اس پروجیکٹ کے ہیڈ بنے، ان کی سربراہی میں جینیٹکس، آرکیالوجی، موسمیات، ماحولیات، کمپیوٹر سائنس، انفارمیشن ٹیکنالوجی، سماجیات اور انسانی رویوں کے بڑے دماغوں نے انسانی تہذیب پر ریسرچ شروع کی۔

ریسرچ کی بنیاد تھی کہ انسان کا ماضی کیا ہے؟ ریسرچ کرنیوالے جب 536ء سے 547ء کے دنوں میں پہنچے تو علم ہوا کہ شوگر، کورونا، ڈینگی، ایڈز، بلڈ کینسر، ہارٹ اٹیک اتنا خطرناک مرض نہیں بلکہ اُن دنوں جب لوگ ایک صبح سو کر اٹھے تو سورج طلوع ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا، یورپ اور آدھے ایشیا سے سورج غائب ہو چکا تھا، سورج کی کرن تلاش کرنے کے باوجود نہیں مل رہی تھی، اندھیرا ہی اندھیرا پوری دنیا میں چھا گیا۔

آگ سے ہونے والی روشنی بھی ختم ہونا شروع ہو گئی، لوگوں نے اسے کچھ وقت کی عارضی سختی سمجھا مگر یہ سلسلہ درازہی ہوتا چلا گیا اور سورج کی روشنی کے بغیر کرۂ ارض پر درجہ حرارت ختم ہو گیا۔ دنیا برف کی مانند جمنے لگی۔ آگ کے لئے لکڑیاں ختم ہوئیں اور نظامِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا، استغفراللہ سکینڈ منٹ بن گیا، منٹ گھنٹہ محسوس ہونے لگا، دن ہفتہ، ہفتہ مہینہ اور مہینہ سال جیسا ہو گیا، شدید سردی کا اڑھائی ہزار سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ زمین کی فصلیں، باغوں کے پھل اور پھول ختم ہو گئے۔ ندی، نالوں، دریاؤں اور سمندر کا پانی نہ پگھلنے والی برف میں بدل گیا۔

مویشی اور ہر طرح کے جانور بھوک سے مرنا شروع ہو گئے، سردیوں اور گرمیوں کا احساس ختم ہو گیا۔ رات ختم ہونے اور دن طلوع ہونے کا نام و نشان مٹ گیا۔ لوگ جوتے اور کپڑے ابال کر کھانے پر مجبور ہو گئے حتیٰ کہ پرندوں کی آوازیں ختم ہو گئیں۔ لوگ بچ جانے والے پالتو جانور کھانے پر مجبور ہو گئے، انسانی مردوں کو دفن کرنے کی بجائے خود زندہ رہنے کیلئے لاشیں تک بھی کھانا شروع کر دیں۔ گھروں کا فرنیچر تک آگ کیلئے جلا دیا گیا۔ ڈاکٹر میکارمک کی ٹیم نے ان دنوں کو ڈارک ایج (تاریک دور)کا نام دیا ہے۔

مقدس دن جب شروع ہوئے تو پھر درجہ حرارت میں تبدیلی آنی شروع ہوئی۔ زندگی کے احساس نے جنم لینا شروع کیا۔ تقریباً ڈیڑھ سال بعدحالات نے کچھ انگڑائی لی اور ہلکی سی روشنی پیدا ہونا شروع ہوئی۔ بہرحال گیارہ سال لگ گئے سورج کو اپنی پوری توانائی کا جوبن پکڑنے میں، 547ء میں روشنی پیدا ہوئی، موسم واپس لوٹنا شروع ہوا لیکن زمین اپنی طاقت بھول چکی تھی، بیج اُگانا بھول چکی تھی۔

درخت زمین پر پڑے ہوئے تھے، جنگلی حیات نام کی نعمت تقریبا ًناپید ہو چکی تھی۔ اسی بنا پر جانوروں کی آوازیں سننے کے لئے لوگوں کے کان ترس گئے تھے۔ تاریخ دان ڈاکٹر میکارمک لکھتے ہیں کہ یورپ اور ایشیاکے لوگ زندگی کا مطلب ہی بھول چکے تھے۔ مایوسی کا سلسلہ 570ء تک رہا۔ لوگوں کو بیٹھے رہنے کی عادت سی ہو گئی تھی، ڈاکٹر میکارمک خود اور ان کی ٹیم اس بات پر متفق ہے کہ 82 فیصد لوگوں کو بیٹھنا اچھا لگتا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ لمبا عرصہ بیٹھے بیٹھے لوگوں نے گزار دیا تھا، یہ بری عادت ہماری جینز میں پہنچ گئی، ڈپریشن(اداسی) بھی انہی دنوں کی سوغات ہے جبکہ ڈپریشن کا بہترین اور کامیاب علاج واک ہے۔ بہرحال 570ء میں کائنات کی خوبصورتی اپنی پوری طاقت کے ساتھ رونما ہونا شروع ہوئی۔

ایک طویل عرصہ یورپ اور ایشیا کے اکثر حصوں پر ظلمات کے جو گہرے بادل چھائے رہے تھے وہ ختم ہو گئے، ڈاکٹر میکارمک اور ان کی ٹیم کو تو سورج طلوع ہونے کی ٹھوس وجہ معلوم نہیں لیکن اس کا جواب ہمارے وزیراعظم عمران خان، خاتونِ اول اور وفاقی وزیر برائے مذہبی امور ڈاکٹر نورالحق قادری کے زیر سایہ بننے والی رحمت العالمینﷺ اتھارٹی، جس کی ذمہ داری غالباً ڈاکٹر ساجد الرحمٰن کو دی جا رہی ہے، ان کو چاہئے کہ وہ ریسرچ کرکے ڈاکٹر میکارمک سے رابطہ کرکے ان کو آگاہ کریں کہ ان مقدس دنوں میں 22اپریل 570ء یعنی 12ربیع الاول عید میلاد النبیﷺ کا مقدس دن آیا۔

جب رسول پاکؐ اس دنیا میں تشریف لائے اور دنیا سے تاریکی ختم ہو گئی، دشمنی دوستی میں بدل گئی، بےاولادوں کو اولادِ نرینہ ملی، خشک اور بنجر زمین میں تازگی آگئی، ظلمت نور میں بدل گئی، ہر طرف نور پھیل گیا، ولادت کی گھڑی آئی تو بہار آئی، حضرت عبداللہؓ اور حضرت آمنہؓ نے پوری کائنات کا مقدر بدل کر رکھ دیا۔

حضرت حلیمہ سعدیہؓ کا مقدر بھی جاگ گیا، ابر کرم چھا گیا، بےرونق دنیا کو رونق بخشی گئی، دنیا کا دوبارہ سے آغاز ہوا، کعبہ جھک گیا، اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم فرمایا، ایک جھنڈا مشرق میں لگاؤ، ایک مغرب میں لگاؤ اور ایک جھنڈا خانہ کعبہ کی دیوار پر لگاؤ، اللہ تعالیٰ نے میلاد النبیﷺ کی خوشی میں پورا سال تمام ماؤں کی قسمت میں بیٹے کر دیے۔

صحیح بخاری کے مطابق ابولہب جیسے کافر و مشرک کو بھی مرنے کے بعد میلاد منانے کا اجر ملا۔مہربان جاوید چوہدری صاحب بنیادی طور پر ایک صوفی منش شخصیت ہیں جو اب باقاعدہ راہِ تصوف کے مسافر ہو چکے ہیں۔ پچھلے دنوں اسلام آباد میں انکے گھر حاضر ہوا اور پھر ان کے ساتھ رات ساڑھے بارہ بجے تک واک کرنے کا موقع ملا۔ آج کے کالم کے محرک جاوید چوہدری صاحب اوران کا ایک کالم ہی ہے۔

جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند

اُس دِل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔