بلاگ
Time 20 اکتوبر ، 2021

پاکستان میں امریکی سفیرکواہم چیلنج کیاہوگا؟

ڈونلڈ بلوم
ڈونلڈ بلوم

امریکاکو بلآخر پاکستان سمیت خطے کی اہمیت کا احساس ہوہی گیا۔ طویل عرصے بعدامریکا نے پاکستان کے لیے اپنا سفیر نامزد کرنے کا اہم فیصلہ کرلیاہے۔ 

یہ نامزدگی ایسے وقت کی جارہی ہے جب افغانستان میں فوجی انخلا اور طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد پاکستان کی اہمیت میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے، روس اور چین کا خطے میں اثر بڑھ رہا ہے، افغانستان میں داعش سراٹھا رہی ہے اورمختلف شہروں میں پے درپے حملے کرنے کے سبب نہ صرف افغانستان بلکہ خطے کی سلامتی کو نئے خطرات سے دوچار کیے ہوئے ہے۔

ایسے میں امریکا کے صدر جوبائیڈن کی جانب سے خطے کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان میں سفیر کی نامزدگی کی خواہش ظاہر کیا جانا انتہائی زیرک فیصلہ ہے۔

ڈونلڈ بلوم کے کیرئرپرنظرڈالیں تو یہ احساس بڑھتا ہےکہ وہ مشرق وسطی اور جنوب ایشیا کواسی طرح جانتے ہیں جیسے لوگ اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو گن سکتے ہیں۔

ڈونلڈ بلوم سن 2019 سے تیونس میں امریکا کے سفیر کی حیثیت سے کام کر رہےہیں۔ وہی تیونس جس نے عرب خطے میں ڈرامائی تبدیلیوں پرمشتمل عرب اسپرنگ کا سب سے پہلےمزہ چکھا تھا۔

ڈونلڈ بلوم اس سے پہلے لیبیا کے لیے امریکا کے ناظم الامور بھی رہ چکے ہیں جہاں سن 2011 میں معمر قذافی کے خلاف بغاوت کے بعد سے برپا شورش ابھی تھمی نہیں۔ لیبیا میں اس وقت گورنمنٹ آف نیشنل اکارڈ کو داعش کا چیلنج درپیش ہے اور امریکا اس خطرے سے نمٹنے کے لیے لیبیا کی معاونت کر رہا ہے۔

ڈونلڈ بلوم لیبیا میں ذمہ داری اداکرنے سےپہلے مقبوضہ بیت المقدس میں 2015  سے 2018 تک بحثیت قونصل جنرل کام کر رہے تھے۔ یعنی وہ نازک لمحہ جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکا نے اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے متنازع طورپر مقبوضہ بیت المقدس منتقل کیاتھا۔ یہ الگ بات ہے کہ موجودہ صدربائیڈن بھی واضح کرچکے ہیں کہ امریکی سفارتخانہ واپس تل ابیب نہیں لایاجائے گا۔

2013 سے 2015 تک بھی ڈونلڈ بلوم نے محکمہ خارجہ کے لیے عرب امور کے ڈائریکٹر کے فرائض انجام دیے تھے۔

ڈونلڈ بلوم سن 2012 سے سن 2013 تک کابل میں امریکی سفارتخانے میں سیاسی قونصلر رہے۔  یہ چیلنجنگ حالات تھے کیوں کہ افغانستان کے مختلف صوبوں میں مزاحمت کاروں کی جانب سے آئی ای ڈی کے حملوں میں خوفناک حد تک اضافہ ہو چکا تھا۔ یہ وہ وقت بھی تھا جب اس دور کےصدر حامد کرزئی نے امریکی فوج سے بیرکوں میں واپسی کا مطالبہ کیا تھا اور افغان فوج نے نیٹو سے فوجی اور سکیورٹی ذمہ داریاں حاصل کر لی تھیں۔

ڈونلڈ بلوم سن 2009 سے 2012 تک قاہرہ میں امریکی سفارتخانے سے بحثیت معاشی اور اقتصادی قونصلر وابستہ رہے۔ یہ ملک بھی عرب اسپرنگ کے ذائقہ سے لطف اٹھاچکا ہےاورحسنی مبارک کوماضی کاحصہ بناچکا۔

ڈونلڈ بلوم سن 2007 سے سن 2008 تک بغداد میں امریکی سفارتخانے میں ملٹی نیشنل فورس اسٹریٹیجک انگیجمنٹ سیل کے سویلین کو ڈائریکٹر تھے۔ عراق میں یہ دور نسبتاً پرامن تھاکیونکہ ابومصعب الزرقاوی کی قیادت میں سن 2004 میں سامنے آنےوالی داعش سن 2007 میں امریکی فوج کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ہی چار برس کے لیے غائب ہوچکی تھی ۔

ڈونلڈ بلوم کے بارے میں اہم بات یہ بھی ہے کہ وہ نہ صرف کویت میں سیاسی قونصلررہے ہیں بلکہ اردن اور ریاض میں بھی امورانجام دے چکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ وہ ایران ڈیسک پر بھی کام کرچکےہیں۔

وائٹ ہاؤس کے مطابق ڈونلڈ بلوم کا تعلق مشی گن سے ہے۔ انہوں نے محکمہ خارجہ میں کام کرنے سے پہلے اسی ریاست ہی میں تعلیم حاصل کی اور وکالت سے وابستہ تھے۔ وہ روانی سے عربی بولنابھی جانتے ہیں۔

ڈونلڈ بلوم کی پاکستان میں سفیر کی حیثیت سے تقرری کی توثیق تو ابھی سینیٹ سے ہونے کا مرحلہ باقی ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ سن 2018 میں ڈیوڈ ہیل کے جانے کے بعد سے اسلام آباد میں امریکی سفارتخانہ سفیر کی بجائے نچلے درجے کے افسریعنی ناظم الامور کے زریعے چلایاجارہاہے۔ اس وقت انجیلاایگلر بحیثیت ناظم الامور خدمات انجام دے رہی ہیں۔

ڈونلڈ بلوم کی بطور سفیرنامزدگی کی خواہش سے پہلے امریکی حکومت نے کراچی میں نیا قونصل جنرل تعینات کیاہے۔

مارک اسٹرو/یو ایس ایمبیسی
مارک اسٹرو/یو ایس ایمبیسی

نئے قونصل جنرل مارک اسٹروبھی فارن سروس ہی سے وابستہ ہیں۔ حالیہ تعیناتی سے پہلے وہ واشنگٹن ڈی سی میں گلوبل افئیرز بیورو میں انٹرنیشنل میڈیا کے مینجنگ ڈائریکٹر تھے تاہم اس سے پہلےدوسال تک یعنی سن 2017 اور سن 2018 میں وہ شام کے شمال مشرقی علاقوں میں سیریا ٹرانزیشن اسسٹنس ریسپانس ٹیم فارورڈ کے ٹیم لیڈر تھے۔ یہی نہیں مارک اسٹرو بھی کویت، عراق اورافغانستان میں بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔

ڈونلڈ بلوم کے برعکس مارک اسٹرو کا پس منظر صحافت سے ہے۔ تاہم بلوم اوراسٹرو میں یہ بات مشترک ہے کہ دونوں ہی کو مشرق وسطی اور جنوب ایشیا میں خدمات انجام دینے کا تجربہ ہے۔

سوال یہ ہےکہ آیا نئے سفیرپاکستان کو امریکا کے قریب لانے میں کس حد تک کامیاب ہوں گے کیونکہ اسلام آباد واضح کرچکا ہے کہ وہ چین اور امریکا دونوں ہی کو ساتھ لے کر چلنا چاہتا ہے۔ افغانستان، ایران اور روس کے لیے ڈونلڈ بلوم کا کیا وژن ہوگا، یہ شاید سینیٹ میں توثیق کےوقت ہی سامنے آسکے۔

بلوم اور اسٹرو کے بارے میں بائیڈن انتظامیہ کے فیصلوں پر یہ ضرور کہا جاسکتا ہےکہ یہ اقدام ایسے موقع پر کیا گیا ہے کہ جب مشرق وسطی اور جنوب ایشیا دونوں ہی نئے موڑ پرکھڑے ہیں، چناؤ کا یہ امریکی انداز ان حکومتوں کے لیے اہم سبق بھی ہے جو اہم ممالک میں تعیناتیوں پر میرٹ کے بجائے اقربا پروری کو ترجیع دیتے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔