شریف فیملی کے اختلافات

میں یہ سنتے سنتے ’’بوڑھا‘‘ ہو گیا ہوں کہ نواز شریف اور شہباز شریف ایک پیج پر نہیں ہیں۔ دوسری بات یہ کہ موجودہ حکومت اور فوج ہمیشہ سے ایک پیج پر رہے ہیں ۔

پہلی بات کی طرف میں بعد میں آتا ہوں پہلے یہ کہ حکومت اور فوج کے ایک پیج پر ہونے کی بات بار بار اتنے فخر سے کی جاتی ہے جیسے فوج کا حکومت کے ساتھ ہونا ایک عجوبہ ہو جبکہ فوج حکومت کا ایک ادارہ ہے اور سب ادارے حکومت کے پیج ہی پر ہوتے ہیں چنانچہ مجھے یہ بات بہت عجیب لگتی ہے کل کلاں کوئی یہ کہے کہ حکومت اور وزارت خزانہ یا وزارت داخلہ یا وزارت خارجہ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں، یہ سب ادارےایک پیج پر ہیں تو بات کوئی بنتی نہیں۔

 حکومت اور فوج کے ایک پیج پر ہونے کی بات شاید اس لئے کہی جاتی ہے کہ ماضی میں کچھ ایسی مثالیں ملتی ہیں جب حکومت اور فوج ایک پیج پر نظر نہیں آئیں مگر اب تو یہ بات نہیں کہنی چاہئے کیوں نہیں کہنی چاہئے ؟ پتہ نہیں !

باقی نواز اور شہبازمیں ’’ اختلافات‘‘ کا بار بار ذکر کرنے والے شاید شریف خاندان کی روایات سے واقف نہیں ہیں، اس خاندان میں اگر کوئی بھائی دوسرے بھائی سے چھ ماہ ہی بڑا ہو، اسے ’’بڑا‘‘ ہی سمجھا جاتا ہے اور چھوٹا بھائی اس بھائی کو وہی عزت دیتا ہے جو بڑوں کی کی جاتی ہے ۔

میں نے جدہ میں اس خاندان کی جلاوطنی کے دوران ان کے طور طریقے دیکھے تھے ۔میاں محمد شریف اور بیگم میاں شریف کھانے کے وقت کرسیوں پر بیٹھے ہوتے تھے اور باقی سارا خاندان، نواز شریف، ان کی بیگم اور بچے، شہباز شریف اور ان کی بیگم اور بچے سب نیچے زمین پر بیٹھے کھانا کھاتے تھے اور عباس شریف جو دونوں بھائیوں سے چھوٹے تھے وہ کسی خادم کی طرح اپنے والد اور والدہ کے قریب کھڑے انہیں سرو کرتے دکھائی دیتے تھے ۔

 میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف ،میں نے ان دونوں بھائیوں کو مختلف مواقع پر اپنے عظیم والد میاں محمد شریف کو ان کی وہیل چیئر پر سیر کراتے بھی دیکھا ہے ! میں نے یہ باتیں اس لیے کہی ہیں کہ دونوں بھائیوں میں کچھ معاملات پر جو اختلاف رائے پایا جاتا ہے وہ اس نوع کا اختلاف ہے جسے رحمت سمجھا جاتا ہے، 

حکومت سے معزولی کے بعد ماضی میں جب کبھی میری ملاقات میاں شہباز شریف سے ہوئی میں نے ان کی زبان سے صرف یہ کہتے سنا کہ وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور پاکستانی عوام کی بہتری اور فلاح وبہبود کےلئے جو منصوبے ان کی جماعت نے سوچ رکھے تھے اور جن پر ابتدائی کام بھی ہو چکا تھا وہ سب رائیگاں جاتا نظر آ رہا ہے۔

چنانچہ کوئی درمیانی راستہ ضرور نکالنا چاہئے خصوصاً جدہ میں، میں نے انہیں اس حوالے سے شدید کرب میں دیکھا تھا اور پاکستان میں بھی انہیں اس پریشانی میں دیکھا کہ بہت دیر ہو رہی ہے جہاں تک میاں نواز شریف کا تعلق ہے انہیں شہباز شریف کی اس رائے سے کوئی بنیادی اختلاف نہیں وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ووٹ کو عزت دی جائے،

 کیونکہ اگر ووٹ کو عزت نہ دی گئی تو غیر مستحکم سیاسی نظام کی وجہ سے ہر دو تین سال کے بعد ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہونا پڑے گا جس کے نتیجے میں عوامی فلاح وبہبود کے لئے زیر تکمیل منصوبے سبوتاژ ہوسکتے ہیں اور شہباز شریف وقت کے ضیاع پر اسی طرح ہاتھ ملتے نظر آئیں گے۔

اور ہاں اگر شہباز شریف کو اقتدار کا شوق ہوتا تو وہ جب چاہتے وزارت اعلیٰ سے وزارت عظمیٰ کا تاج سر پر پہن سکتے تھے انہیں مقتدر حلقوں کی طرف سے مختلف مواقع پر تین بار وزارت عظمیٰ کی پیشکش ہوئی مگر انہوں نے تینوں بار انکار کر دیا۔ ایک تو اس لئے کہ وہ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ یہ ’’غداری‘‘ کر ہی نہیں سکتے تھے۔ 

لوگ کہتے ہیں کہ ووٹ نواز شریف کا ہے چنانچہ شہباز شریف کو ووٹر تسلیم نہیں کریں گے جبکہ شہباز شریف نے پنجاب کے عوام کےلئے گرانقدر خدمات انجام دی ہیں، وہ الہٰ دین کے جن کی طرح تھے لوگ اپنی کسی بھی ضرورت کے لئے ’’چراغ‘‘ رگڑتے تو یہ سراپا خدمت جن حاضر ہو جاتا اور ’’کیا حکم ہے میرے آقا‘‘ کہہ کر ان کی خدمت میں جت جاتا۔ 

اس وقت پنجاب میں جتنے بھی ترقیاتی کام ہوئے تھے وہ نواز شریف کے وژن اور رہنمائی میں ہوئے ۔یہاں یہ مان لینا چاہئے کہ کچھ اچھے کام چوہدری پرویز الٰہی کے دور میں بھی ہوئے جن میں 1122کی سروس سرفہرست ہے تاہم مسلم لیگ ن کی حکومت میں پنجاب میں نہیں اوورآل آج جیسی صورت نہیں تھی اور نہ ہی اتنی آئیڈیل کہ ہم کہیں کہ عوام کے سارے مسائل حل ہوگئے تھے تاہم یہ یقینی بات ہے کہ نواز شریف کی قیادت اور پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں شہباز شریف کی جناتی کوششوں کے نتیجے میں پاکستان ترقی کی منزلیں بہت تیزی سےطے کر رہا تھا جبکہ ترقی آج کل بھی ہو رہی ہے مگر اس ترقی کو ’’ترقیٔ معکوس‘‘ کہا جاتا ہےکیوں کہ آج عوام بلبلا رہے ہیں، بے شمار مسائل میں گھرے دکھائی دیتے ہیں انہیں عوام کے سروں پر بٹھانے والے بھی پریشان ہیں اور جانتے ہیں کہ عوام کی ’’ناشائستہ گوئی ‘‘ کا نشانہ وہ بھی بن رہے ہیں۔

 میں نواز شریف صاحب سے درخواست کروں گا کہ لوگ انہیں اپنے درمیان دیکھنا چاہتے ہیں ان کے ذہن میں اگر کوئی درمیانی راستہ ہے جس میں ووٹ کی عزت بھی برقرار رہ سکتی ہو تو اسے بروئے کار لائیںتاکہ عوام ڈرائونے خواب جیسی اس حکومت سے نجات حاصل کر سکیں! مریم نواز بہت زیادہ صلاحیتوں کی مالک ہیں، لوگ ان کے نام پر جلسوں میں کھینچے آتے ہیں وہ اپنے باپ اور چچا کی طرح بہادر بھی ہیں، ان کے والد ان سےاور وہ اپنے والد سے بے پناہ محبت کرتی ہیں میری خواہش ہے کہ وہ اس ضمن میں اپنا کردار ادا کریں ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔