Time 07 نومبر ، 2021
بلاگ

ریاست سیاسی پارٹیاں ہی سنبھال سکتی ہیں

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں سے حال احوال جاننے کا دن۔ مجھے بے پایاں خوشی ہوتی ہے جب احباب کہتے ہیں کہ آپ کی یہ اتوار ’نئی نسل ملاقات‘ کی مہم بہت خوش آئند ہے۔

ہم تو ہر اتوار اس پر عمل کررہے ہیں۔ ایک ہفتے کی ہماری تھکن دور ہوجاتی ہے۔ اگلا ہفتہ بامقصد گزارنے کے لئے نئی توانائی میسر آجاتی ہے۔ آج باتیں ہوں گی۔ سیاسی جماعتوں کے فیصلہ کن کردار کی۔ کسی ریاست کو سیاسی پارٹیاں ہی پوری طرح سنبھال سکتی ہیں۔ سیاست ایک مقدس شعبہ ہے۔ اگر چہ اسے بہت زیادہ بدنام کردیا گیا ہے۔ لیکن قوموں کی ترقی میں سب سے اہم کردار سیاسی جماعتوں کا ہی ہوتا ہے۔

ہمارے ہاں سیاست کو ایک طرف تو مارشل لائوں نے ملزم اور مجرم ثابت کیا۔ دوسری طرف تاریخ کے ہر موڑ پر سیاستدانوں نے خود ایک دوسرے پر الزامات عائد کرکے عوام کی نظروں میں گرایا ہے۔ میرے نزدیک ان ساری الزامی مہموں کے باوجود قومی سیاسی جماعتیں مکرّم اور محترم ہیں۔

کیونکہ بر صغیر میں مسلمانوں کے لئے یہ الگ وطن ایک سیاسی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ نے ایک سیاستدان قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں ہی حاصل کیا تھا۔ بانیان ِپاکستان میں سب علاقوں کے سیاستدان ہی شامل تھے۔ مسلم لیگ میں کوئی حاضر سروس یا ریٹائرڈ جنرل نہیں تھا۔ نہ ہی کوئی بیورو کریٹ۔

البتہ یہ قباحت تھی کہ جاگیردار، زمیندار، قبائلی سردار بڑی تعداد میں تھے۔ لیکن وہ سب اہلِ سیاست تھے۔ سویلین تھے۔ جنرل۔ بریگیڈیئر۔ سیکرٹری۔ سب انگریز سرکار کی خدمات انجام دے رہے تھے۔ یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ مسلم لیگ پاکستان کے قیام کے فوراً بعد کے رجحانات اور امکانات کا مکمل ادراک نہ کرسکی اور ایک نوزائیدہ مملکت کے استحکام کےلئے جن پالیسیوں، خاکوں اور منصوبوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ تیار کرنے کی بجائے پنجاب، بنگال، بلوچستان، سندھ اور سرحد سب جگہ سازشیں شروع ہوگئیں۔ ملکی مفاد کی بجائے قبائلی مفادات غالب آگئے۔ پھر مذہبی پریشر گروپوں نے بھی سر اٹھانا شروع کردیا۔

یہ ساری تفصیلات ڈاکٹر صفدر محمود کی لازوال تصنیف ’’مسلم لیگ کا دَور حکومت‘‘ میں پڑھی جاسکتی ہیں۔ قیام پاکستان میں مسلم لیگ اس لئے کامیاب ہوئی کہ اسے قائد اعظم اور قائد ملت کی رہنمائی میسر تھی۔ 1951کے بعد تو مسلم لیگ پارہ پارہ ہوتی رہی ہے۔ آج کی کسی بھی مسلم لیگ کو پاکستان حاصل کرنے والی مسلم لیگ کا تسلسل نہیں کہا جاسکتا۔

ماضی کا جائزہ بہت تفصیل طلب ہے۔ ہم آج کے سیاسی منظر نامے کا براہ راست جائزہ لیتے ہیں۔ بہت انتشار ہے افراتفری ہے۔ اقتصادی بحران ہے۔ زرعی پسماندگی ہے۔ اخلاقی فقدان ہے۔ اس کی ذمہ دار کئی اداروں کے ساتھ قومی سیاسی جماعتیں بھی ہیں۔لیکن یہ مسلمہ امر ہے کہ ان بحرانوں سے نکلنے اور ملکی استحکام کی چابی اب بھی قومی سیاسی پارٹیوں کے پاس ہی ہے۔

تاریخ بھی ان کی طرف دیکھ رہی ہے۔ جغرافیہ بھی ان کی راہ تک رہا ہے۔ معیشت بھی ان کی منتظر ہے۔ مواقع اور وسائل ہونے کے باوجود یہ موثر کارکردگی نہیں دکھا پاتیں کیونکہ یہ اپنے آپ کو ملک گیر سطح پر منظم کرنے کے مطلوبہ عمل پر توجہ نہیں دیتیں۔ ان میں موروثیت آگئی ہے۔ کارکنوں کو عزت نہیں دی جاتی صرف استعمال کیا جاتا ہے۔

اقتدار کے لئے یہ چور دروازوں پر دستک دیتی رہتی ہیں۔ پہلی صف میں اس وقت پاکستان تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نظر آرہی ہیں۔ دوسری صف میں بلوچستان عوامی پارٹی ، جمعیت علمائے اسلام، متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی اور تحریک لبیک پاکستان دکھائی دیتی ہیں۔ تمام تر الزامات کے باوجود پاکستان تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ(ن)، پاکستان پیپلز پارٹی کی اپنی اپنی مثبت تعمیری خدمات بھی ہیں۔ جنہیں تاریخ فراموش نہیں کرسکتی۔ پی پی پی نے عوام کو اپنی طاقت کا احساس دلایا۔ملک دو لخت ہونے اور شکست کے باوجود قوم کو اعتماد دیا۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) نے پنجاب کو پہلی بار اپنی قیادت دی۔

پاکستان تحریک انصاف نے کرپشن کے خلاف آواز بلند کرکے نوجوانوں کو ایک امید دلائی۔ لیکن یہ تینوں پارٹیاں ملک گیر تنظیم نہیں رکھتیں پی پی پی سندھ تک محدود ہے۔ پی ایم ایل(ن) پنجاب میں مقبول ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت اگرچہ پنجاب میں بھی ہے۔ لیکن اس کی پذیرائی کے پی کے میں زیادہ ہے۔ بلوچستان میں ان تینوں پارٹیوں کا وجود مستحکم نہیں ہے۔ وہاں ایک ایسی پارٹی کی حکومت ہے جس کا دوسرے کسی صوبے میں وجود نہیں ہے۔

یہ انتہائی تشویشناک امر ہے کہ بلوچستان میں غیر ملکی دلچسپیاں زیادہ ہیں۔’ را‘ بھی سرگرم ہے۔ وہاں ان تینوں قومی سیاسی پارٹیوں کی جڑیں نہیں ہیں۔ یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ پارلیمانی جمہوریت کو قومی سیاسی پارٹیاں ہی مستحکم رکھ سکتی ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ تینوں بڑی سیاسی جماعتیں ہر نئی صورت حال میں ایک باضابطہ سیاسی جماعت کی حیثیت سے کردار ادا نہیں کرتی ہیں۔ کورونا جیسی وبا ہو۔ اقتصادی بحران ہو۔ تحریک لبیک پاکستان کا احتجاج ہو۔ بھارت کی سازشیں۔ افغانستان کی نئی سیاسی صورت حال۔

تینوں پارٹیوں کی سینٹرل کمیٹیوں کے باقاعدہ اجلاس نہیں ہوئے۔ کوئی بحران ہو۔ اس پر تینوں کی مرکزی مجالس عاملہ غور و خوض نہیں کرتی ہیں۔ غیر منتخب ترجمانوں کا دَور ہے۔ حکمرانوں کے منہ سے کوئی لفظ نکلے یا تقریرہو۔ تو مکمل بیان پڑھے بغیر اپوزیشن کے ترجمان چند منٹ میں ہی بول پڑتے ہیں۔ اپوزیشن کا جلسہ ہو تو حکومتی ترجمان اپنی غزل چھیڑ دیتے ہیں۔

ملکی معاملات سنجیدگی کا تقاضا کرتے ہیں۔ 22 کروڑ عوام کی زندگیاں ان امور سے وابستہ ہیں۔ قومی سیاسی پارٹیوں کو ہر معاملے پر باہمی مشاورت کے بعد اپنے اقدامات کا اعلان کرنا چاہئے۔ اعداد و شُمار سامنے رکھنے چاہئیں۔ وزیر اعظم کو بھی زیادہ بولنے کا شوق نہیں ہونا چاہئے۔

پاکستان کی ریاست اس وقت محصور ہے۔ حکومت ان حالات اور بین الاقوامی اداروں کے سامنے معذور ہے۔ بے بس ہے۔ عوام بے چارے ان سب ناکامیوں کا ملبہ اپنے اوپر برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ بحرانوں کے خاتمے کی چابی پی پی پی ۔ پی ٹی آئی یا مسلم لیگ(ن) کے پاس ہی ہے۔نہ جانے یہ کسی اور کی جیب میں کیوں ڈھونڈتی ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔