بلاگ
Time 09 نومبر ، 2021

پیش بین، علامہ اقبالؒ

کسی بھی انقلاب یا تحریک کے پیچھے اس کا کوئی معمار ہوتا ہے جو اپنی حکمت و دانش سے ایک خاکہ بناتا ہے ،پھر کچھ لوگ اپنی عملی جدوجہدسے اس خاکے میں رنگ بھرتے ہیں۔ انقلابِ روس اور انقلابِ فرانس تاریخ عالم کے دویادگار انقلابات تھے۔ 

تحریکِ پاکستان انقلابِ فرانس اور روس سے بڑا کارنامہ تھا جس کو اگر علامہ اقبال جیسا شاعر اور مفکر نہ ملتا تو شاید پاکستان کبھی معرضِ وجود میں نہ آپاتا۔ علامہ اقبال ایک فلسفی اور انقلابی ہیں جنہوں نے اپنی قوم تک اپنے نظریات پہنچانے کے لئے اس وقت کے مؤثر ترین ذریعہِ اظہار شاعری کو چنا۔ علامہ اقبال کا خاندان کشمیری برہمنوں کا خاندان تھا یہ لوگ تین سو سال قبل مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔ ان کے والد شیخ نور محمد اور والدہ نہایت نیک، متقی اور پرہیز گار تھیں۔ ایک رات شیخ نور محمد نے خواب میں دیکھا کہ ان کے صحن میں ایک نورانی فرشتہ اترا ہے جس کے نور کی روشنی دور دور تک پھیل گئی ہے۔ 

اس خواب کی تعبیر کے طور پر9نومبر1877کو علامہ محمد اقبالؒ سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔ابتدائی تعلیم مکتب سے حاصل کی اور پھر استاد میر حسن کے پاس بھیج دئیے گئے (جب برطانوی حکومت نے علامہ اقبال کو’’ سر‘‘ کا خطاب دینا چاہا تو انہوں نے پہلے اپنے استاد میر حسن کو ’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دینے کی شرط رکھی کہ تب وہ ’’سر‘‘ کا خطاب قبول کریں گے)۔ علامہ محمد اقبالؒ نے مشن ہائی اسکول سے میٹرک کیا۔ اس کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور آ گئے جہاں انہوں نے 1897میں بی اے کیا اور اس کے دو سال بعد ایم اے کر لیا۔ جس کے بعد وہ اورینٹل کالج میں لیکچرارکے طور پر خدمات سرانجام دینے لگے۔

اورینٹل کالج میں علامہ اقبال کی ملاقات مشہور پروفیسر سر تھامس آرنلڈ سے ہوئی جن کے مشورے پر وہ یورپ تشریف لے گئے جہاں سے انہوں نے بیرسٹری کی ڈگری حاصل کی۔ جرمنی کی ایک یونیورسٹی سے انہوں نے پی ایچ ڈی کی۔ان کی پی ایچ ڈی کا موضوع’’ میٹا فزکس آف پرشیا‘‘تھا۔ مسلم لیگ کی بنیاد 1905میں نواب سلیم اللہ ڈھاکہ میں رکھ چکے تھے، انہوں نے ہندوستان کے تمام نوابین اور والیانِ ریاست کو مسلم لیگ میں شرکت کی دعوت دی۔ انڈین نیشنل کانگریس ہندوئوں کے مفادات کی محافظ جماعت بن چکی تھی جس کے مقابلے میں مسلم لیگ مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے وجود میں آئی، انگلستان میں بھی مسلم لیگ قائم ہو چکی تھی جس کی قیادت جسٹس امیر علی کر رہے تھے۔

علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ؒنے 1911میں مسلم لیگ کی رکنیت حاصل کی اور پھر بڑی سرگرمی کے ساتھ اس کے لئے کام کرنا شروع کر دیا۔ علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے اپنی شاعری اور تقاریر کے ذریعے مسلمانانِ ہند کو ایک الگ اسلامی جمہوری ریاست کے حصول کی ترغیب دی۔ علامہ صاحب نے اپنی شاعری کے ذریعے خوابِ خرگوش کے مزے لوٹنے والی مسلم کمیونٹی کو بیدار کرنے اور ایک پرچم تلے اکٹھا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ 

علامہ محمد اقبالؒ نے مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک آزاد اور خود مختار یونٹ کا تصور پیش کیا جہاں مسلمانانِ ہنداپنے نظریات و عقائد کے مطابق اپنی زندگیاں آزادنہ طور پر بسر کر سکیں۔ علامہ اقبال نے قائدِ اعظم محمد علی جناح کی معیت میں مسلمان زعماء کو تحریکِ پاکستان میں بھرپور کردار ادا کرنے پر آمادہ کیا۔ علامہ محمد اقبال ایک عظیم مصلح تھے۔ ان کی شاعری میں عمومی شعری روایت کے بر عکس حالاتِ حاضرہ کی جھلک ، فلسفہ ، تصوف ، عصری تقاضوں کی نشاندہی اور مستقبل کا لائحہ عمل فراواں نظر آتا ہے۔

1927کے انتخابات میں وہ پنجاب کی قانون ساز اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ انہوں نے مسلمانوں کے لئے سرکاری ملازمتوں، دیہی علاقوں کی بہتری ،خصوصاًخواتین کی طبی امداد کے لئے زیادہ بجٹ مختص کروانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ جن دنوں علامہ اقبال پنجاب اسمبلی کے رکن تھے انہی دنوں انہیں آل انڈیا مسلم لیگ کا سیکرٹری بھی منتخب کر لیا گیا۔ علامہ اقبال نے 1930میں آل انڈیا مسلم لیگ کے الہٰ آباد میں منعقدہ اجلاس کے ، اپنے خطبے میں پاکستان کا تصور پیش کیا۔

 1932میں علامہ اقبال تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لئے لندن گئے ، قائدِ اعظم محمد علی جناح ہندوستان کی سیاست سے بددل ہو کر انگلستان جا چکے تھے اور وہاں پریوی کونسل میں نہایت کامیاب وکیل کے طور پر پریکٹس کر رہے تھے انہی کے قائل کرنے پر قائدِ اعظم محمد علی جناح وطن واپس آئے ۔ اپریل 1936ءمیں قائدِاعظم علامہ اقبال ؒکی قیام گاہ لاہور، تشریف لائے اور علامہ اقبال ؒکو انتخابات لڑنے کیلئے آمادہ کیا۔ علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ نے جون 1936سے نومبر 1937تک قائدِ اعظم کو جو خطوط تحریر کیے وہ تحریکِ پاکستان کی اہم دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔

1937میں علامہ اقبال کی بینائی خاصی متاثر ہو چکی تھی انہوں نے ایک خط میں قائدِ اعظم سے معذرت چاہی کہ انہیں مسلم لیگ کی خدمات سے سبکدوش کر دیا جائے تاہم ان کی تمام تر دانش اور مشورے مسلم لیگ اور تحریکِ پاکستان کے لئے آخری وقت تک وقف رہے۔ 21اپریل 1938کو یہ عظیم فلسفی ، عظیم رہنما ، عظیم شاعر اور پاکستان کے تصور کے خالق اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے ۔ انہیں ان کی زندگی میں اپنے خواب کی تعبیر دیکھنا نصیب نہ ہوئی لیکن پاکستانی قوم اپنے محسن کو نہیں بھولی ان کے مزار پر ہر روز پاکستان کا پرچم لہرایا جاتا ہے۔ 

علامہ اقبال کی شاعری آج بھی آنے والے ادوار کی پیش بندی میں معاون ہو سکتی ہے۔ علامہ اقبال بیک وقت تین ممالک کے قومی شاعر کے طور پر جانے جاتے ہیں اردو اور فارسی میں انہوں نے ہر طبقے ہر عمر اور حالات کیلئے شاعری کر کے راہِ عمل سجھائی ہے۔ علامہ کی پیش بین نظر نے مسلمانوں کے ہندوئوں کے زیرِ عتاب آنے کو بھانپ کر مسلمانوں کو الگ ریاست کا نظریہ بخشا بنیادی طور پر یہی دو قومی نظریہ کی بنیاد بنا آج ہندوستان میں مسلمانوں سے روا رکھا جانیوالا سلوک ان کی پیش بین نگاہ کا واضح ثبوت ہے۔

(مصنف جناح رفیع فائونڈیشن کے چیئرمین ہیں)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔