بلاگ
Time 11 نومبر ، 2021

کیا جمہوریت غربت بڑھاتی ہے؟

’’جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو خدا کے رستے میں خرچ نہیں کرتے ان کو اس دن کے عذاب الیم کی خبر سنادو۔ جس دن وہ (مال) دوزخ کی آگ میں (خوب) گرم کیا جائے گا۔ پھر اس سے ان (بخیلوں) کی پیشانیاں۔ پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی( اور کہا جائے گا کہ) کہ یہ وہی ہے جو تم نے اپنے لئے جمع کیا تھا۔ سو جو تم جمع کرتے تھے (اب) اس کا مزا چکھو۔‘‘

( القرآن: سورہ توبہ، آیت 35-34۔ مضامین قرآن حکیم۔ مرتبہ: زاہد ملک)

۔۔۔۔۔۔

اسلام کے نام پر قائم کئے جانے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں روزانہ سینکڑوں کلمہ گو خاندان غربت کی لکیر سے نیچے دھکیلے جارہے ہیں۔ جہاں 5کروڑ پہلے سے موجود ہیں۔ دولت کی انتہائی غیر منصفانہ تقسیم دیکھنا ہو تو یہ مملکتِ خداداد حاضر ہے۔

 اربوں روپے کے عالی شان محلات کے ساتھ ہی کچی آبادیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ کروڑوں روپے کی گاڑی میں ایک اکیلا سیٹھ اور دس بیس کے لئے ایک چنگچی۔ یہ مناظر ہمارے وزیر خزانہ، وفاقی و صوبائی وزرا بھی دیکھتے ہوں گے۔ ٹرانسپورٹ کے صوبائی وزیروں کو بھی اپنی مہنگی گاڑی سے چنگچیاں نظر آتی ہوں گی۔ مگر ان میں کتنوں کی آنکھیں ان نظاروں پر نم ہوتی ہوں گی۔ انہوں نے تو ’’احساس‘‘ کو دل اور ذہن سے نکال کر ایک پروگرام کا نام رکھ دیا ہے۔

کہتے ہیں پاکستان میں 100 میں سےجو دس ہیں، 100میں سے 27 روپے ان کے پاس ہیں۔ 100 میں سے جو نیچے دس ہیں، ان کے پاس 100 میں سے صرف 4روپے ہیں۔ درمیان کے اسّی فی صد 4 اور 27 روپے کے درمیان اٹکے ہوئے ہیں۔ 

یعنی 18کروڑ پاکستانیوں کو 5روپے سے 26 روپے تک میں دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنا ہے۔یہ جو معیشت کے ماہرین ہیں۔ یہ فی صد، شرح، اشاریوں، جمع، تفریق، ضرب اور تقسیم سے کھیلنے کے لاکھوں روپے ماہانہ وصول کرتے ہیں۔

 غیر ملکی فنڈنگ سے ایئر کنڈیشنڈ دفتروں میں بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومنے والے تحقیقی اداروں کے ماہرین بہت ضخیم، مہنگی رنگین رپورٹیں چھاپ کر صدر مملکت، وزیراعظم کو پیش کرتے تصاویر چھپواکر محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے غربت کے خاتمے پر ثوابِ دارین حاصل کرلیا۔ کسی نے لیاری میں، واشک میں، جنوبی پنجاب کے دیہات میں، دیر میں جاکر دیکھا ہے کہ وہاں اللہ تعالیٰ کا نائب انسان کس طرح زندگی گزارتا ہے۔

محققین میری مدد کریں۔ یونیورسٹیاں زحمت کریں۔ صحیح اعداد و شُمار لے کر آئیں۔ میں تو چند ایک رپورٹیں ہی دیکھ سکا ہوں جو کہتی ہیں پاکستان میں غربت کی وبا کے زیادہ اثرات 1980 کی دہائی سے شروع ہوئے ہیں۔ 

جب بظاہر تنخواہیں بڑھی ہیں۔ 1990 کی دہائی سے جب ہم معیشت آزاد ہونے کے دعوے کرتے ہیں۔ تاجروں، صنعت کاروں، سرمایہ داروں کو کھلی چھوٹ دے دیتے ہیں۔ تو دولت کی غیر منصفانہ تقسیم میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا ہے۔ کھلی آزاد مارکیٹ۔ مارکیٹ اکانومی خوش نما اصلاحات ہیں۔ ہم تجارت کو عام کرتے ہیں۔ زراعت، صنعت کو محدود۔ سیٹھ کارخانے بند کرکے ان زمینوں پر رہائشی پلازا بناتے ہیں یا شاپنگ مال۔

 پورے ملک کو بدیشی مال کی منڈی بنادیا جاتا ہے۔ اپنے موچی کو بے روزگار کرکے غیر ملکی بوٹ پہننے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ غریبی بڑھاتے ہیں اور غریبی ہٹاؤ کی مہنگی تشہیری مہمیں چلاتے ہیں۔ مالکان کے اختیارات بڑھاکر کارکنوں کی بے روزگاری کو فروغ دیتے ہیں۔ ٹریڈ یونین تحریک کمزور کرتے ہیں۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ جنرل ضیا کے سفاکانہ مارشل لا اور بے شُمار قربانیوں کے بعد جس جمہوریت کا آغاز ہوتا ہے سب سے زیادہ غربت ان 33 سال میں ہی پھیلائی گئی ہے۔ کہتے اسے جمہوریت ہیں۔ لیکن یہ اقتدار میں شرکت ہے۔مارکیٹ کھول دی گئی۔ اکثریت کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے گئے۔

پاکستانیوں میں یہ عادت بھی پختہ کردی گئی کہ ہم برسوں سے جاری مسائل کا ذمہ دار صرف حکومت وقت کو ٹھہرا کر اس کو گرانے میں ہی اپنے دکھوں کا مداوا سمجھتے رہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ(ن) کے ساتھ یہی ہوا۔ ان دنوں میڈیا، سوشل میڈیا، پارلیمنٹ، بازار، سب کا ہدف عمران خان اور ان کی حکومت ہے۔ اس وقت مہنگائی اور غربت یقیناً اپنی انتہا پر ہیں لیکن یہ بتدریج یہاں تک پہنچی ہیں۔ 

جمہوری حکومتوں نے دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کو بڑھانے میں حصّہ لیا ہے کیونکہ ساری پارٹیوں کی قیادتیں، جاگیردار، سردار، سرمایہ دار ہیں۔ انہوں نے غربت دیکھی نہ چکھی۔ اس لئے غربت کا خاتمہ ان کی ترجیح نہیں ہے۔ ان با اثر طبقوں کو مذہبی جماعتوں اور علما کی حمایت حاصل ہوجاتی ہے۔

 جو دولت کی اس تقسیم کو قدرتی قرار دیتے ہیں۔ غربت انسانی بہبود میں بھی رکاوٹ ہے۔ 2017 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان انسانی بہبود۔ یعنی انسانی زندگی کی بہتری میں صرف یمن۔ افغانستان اور شام سے بہتر ہے۔ غربت سب سے زیادہ متاثر تعلیم و صحت کو کرتی ہے۔ غربت کے تھپیڑوں سے بچانے کے لئے حکومت تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ کا بہتر انتظام کرتی ہے مگر یہاں تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ سب مارکیٹ یا مافیا کے حوالے کردیے گئے ہیں۔ مافیا کون ہیں۔ یہ سیاستدانوں کے سرپرست ہیں۔ پارٹنر ہیں۔

غربت ایک بیماری ہے۔ بیماری میں دواؤں کے ساتھ پرہیز بھی ضروری ہے۔ پرہیزی اقدامات کیے جاتے ہیں پیٹرول کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ اس کا تدارک پبلک ٹرانسپورٹ، مقامی ریلوے سے ہوسکتا ہے۔ مگر یہاں مہنگی گاڑیوں کی فروخت کو ترقی سمجھا جاتا ہے۔ یہ ترقی گاڑیوں کی پٹرول کی ٹینکیوں میں چھپ کر بیٹھ جاتی ہے۔

 اکثریت سڑکوں پر خوار ہوتی ہے۔ ملک میں اخوت جیسے ادارے صحیح معنوں میں لاکھوں گھرانوں کو غربت کی گھاٹیوں سے بلا سود قرضوں کے کندھوں پر بٹھاکر قناعت کی وادیوں میں لارہے ہیں۔

حکومت پی پی پی کی ہو، پی ٹی آئی کی ہو یا مسلم لیگ(ن) کی۔ اس کے پائوں میں آئی ایم ایف کی بیڑیاں ہوتی ہیں۔ دماغ پر عالمی بینک کی زنجیر۔ انہیں ایک دوسرے کا اتنا دشمن بنادیا گیا ہے کہ یہ مل جل کر ملک کے اصل مسئلے غریبی یا اقتصادی غلامی کا مقابلہ کرنے کا سوچتے بھی نہیں ہیں۔ملک میں وسائل موجود ہیں۔ 

سونا، تانبا، قیمتی دھاتیں، سونا اگلتی زمینیں، آئی ایم ایف، عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینکوں کے فارمولوں سے ہٹ کر کچھ کرنا ہوگا۔ اپنے سب سے مخلص دوست چین سے سبق حاصل کریں جس نے کئی کروڑ کو غربت کی پاتال سے کامیابی سے نکالا ہے۔

جمہوریت کے عشاق دانشوروں کے لئے لمحۂ فکریہ یہ ہونا چاہئے کہ بڑھتی غربت مسلسل جمہوریت کا نتیجہ بن رہی ہے۔ پارلیمنٹ امیروں کا کلب۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔