بلاگ
Time 17 نومبر ، 2021

اور تبدیلی الٹی پڑگئی

”کچھ لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ شاید عمران خان سے میری کوئی ذاتی مخاصمت ہے حالانکہ وہ ان تین سیاستدانوں میں سے ایک ہیں،جن سے میری شناسائی میدان صحافت میں قدم رکھنے سے قبل ہوئی تھی۔

 امیر جماعت اسلامی سراج الحق، محمد علی درانی اور عمران خان وہ تین سیاستدان ہیں،جن سے میرا تعارف دور طالب علمی میں ہوگیا تھا۔جنرل حمید گل مرحوم کے علاوہ حفیظ اللہ نیازی، ڈاکٹر فاروق خان مرحوم اور محمد علی درانی وہ لوگ تھے جو عمران خان کو سیاست کے میدان میں لائے تھے۔ 

ڈاکٹر فاروق خان میرے بڑے بھائی کی مانند دوست اور نظریاتی تربیت کرنے والے تھے۔ وہ پی ٹی آئی کے بانی جنرل سیکرٹری تھے اور پی ٹی آئی کا دستور بھی انہی کا لکھا ہوا تھا۔ محمد علی درانی کے ساتھ بھی میری دور طالب علمی سے بھائی بندی ہے جنہوں نے عمران خان کو سیاست کے میدان میں دھکیلنے میں اہم کردار ادا کیا لیکن ابتدائی نشستوں میں ان سے متنفر ہوگئے۔

 ڈاکٹر فاروق خان سال ڈیڑھ ان کے ساتھ چلے اور پھر خاموشی کے ساتھ الگ ہوگئے۔ عمران خان سیاست کریں یا نہ کریں؟ اس سوال پر ابتدائی نشستیں لاہور میں جاوید احمد غامدی کے گھر پر ہوئی تھیں جن کو مجھے ڈاکٹر فاروق خان کی وساطت سے براہ راست دیکھنے اور سننے کا موقع ملا تھا۔ کئی دن پر محیط اس بحث کو ایک کونے میں بیٹھ کر میں سنتا رہا۔ جاوید احمد غامدی، عمران خان کو سیاست سے منع کررہے تھے۔ ان کی رائے تھی کہ عمران خان سیاست کے لئے موزوں نہیں۔ وہ انہیں شوکت خانم کی طرح مزید پروجیکٹ شروع کرنے اور ملک کے اندر اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کرنے کا کہتے رہے لیکن عمران خان سیاست کی طرف مائل تھے۔ 

دوسری طرف جنرل حمید گل، حفیظ اللہ نیازی اور ڈاکٹر فاروق خان چاہتے تھے کہ وہ سیاست میں آئیں۔ کئی روز پر محیط اس مباحثے کو سننے کے نتیجے میں ایک تو میں بھی جاوید احمد غامدی کی رائے کا قائل ہوگیا اور دوسرا عمران خان کے بارے میں میری رائے بھی یکسر تبدیل ہوگئی۔ 

اس وقت تک میں کرکٹر اور سوشل ورکر ہونے کے ناطے عمران خان کا فین تھا اور انہیں سیدھا سادہ انسان سمجھ رہا تھا لیکن اس وقت مجھے اندازہ ہوگیا کہ وہ صرف کرکٹر نہیں بلکہ عملی زندگی کے بھی بڑے کھلاڑی ہیں۔ میری یہ رائے بنی کہ وہ اسٹیٹس مین تو نہیں لیکن اپنی ذات کے خول میں بند ایک ایسے انسان ہیں جن کی شخصیت کے مختلف روپ ہیں اور وہ مختلف لوگوں کے سامنے مختلف روپ سامنے لاتے ہیں۔

 بہ ہر حال وہ میدان سیاست میں آئے۔2011 تک میں نے ان کی سیاست کو خاص توجہ دی اور نہ خصوصی تنقید کا نشانہ بنایا۔ افغانستان اور طالبان سے متعلق ان کی اپروچ سے مجھے شدید اختلاف تھا لیکن چونکہ قومی سیاست میں ان کا کردار قابل ذکر تھا اور نہ وہ حکمران تھے، اس لئے میں نے بھی ان پر خصوصی تنقید نہیں کی۔

 ہاں البتہ 2011کے بعد وہ میری خصوصی تنقید کا نشانہ اس وجہ سے بننے لگے کیونکہ مجھے معلوم ہوگیا کہ پاکستان کی ڈیپ اسٹیٹ انہیں نئے سیاسی گھوڑے کے طور پر تیار کرنے لگی ہے۔ عمران خان بعد میں تو جنرل پرویز مشرف کے مخالف، اس وقت بن گئے جب ان کی وزارت عظمیٰ کا خواب پورا کرنے کی بجائے اقتدار مسلم لیگ(ق) کو دلوانے کا فیصلہ ہوا۔ اس وقت عمران خان پرویز مشرف سے راتوں کی ملاقاتوں میں زور دیتے رہے کہ وہ انہیں دو تین درجن الیکٹیلبز دے دیں تو وہ الیکشن جیت سکتے ہیں لیکن پرویز مشرف اور ان کی ٹیم کا کہنا تھا کہ وہ پچاس کو تو سو بناسکتے ہیں لیکن دس کو سو نہیں بناسکتے۔

 یوں عمران خان جنرل پرویز مشرف سے ناراض ہوگئے اور ان کی مخالفت میں وزارت عظمیٰ کے لئے مولانا فضل الرحمٰن کو ووٹ دیا۔ میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کا مطالبہ کرتے رہے جبکہ لندن میں نواز شریف کی بلائی گئی اے پی سی میں بھی شریک ہوئے لیکن اس عرصے میں بھی عمران خان افغانستان اور طالبان سے متعلق ڈیپ اسٹیٹ کی پالیسیوں پر عمل پیرا رہے۔ 

ڈرون حملوں کے خلاف ان کی مہم بھی اس سلسلے کی کڑی تھی۔ 2011 میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے جب پیپلز پارٹی کے ساتھ اختلافات شدت اختیار کرگئے اور مسلم لیگ(ن) پہلے سے مغضوب تھی تو عمران خان کی قیادت میں تیسری قوت کھڑی کرنے کے عمل کا آغاز ہوا۔ اس دوران لوگ ظاہری بیانات کی بنا پر عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ مخالف سمجھ رہے تھے لیکن مجھے ذاتی طور پر علم تھا کہ شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین اور اسد عمر جیسے لوگوں کو کس طرح طاقتوروں نے عمران خان کا ہم سفر بنایا؟

 پھر مجھے یہ بھی علم تھا کہ کس طرح ان کے لاہور اور پنڈی کے جلسے میں ان کا ہاتھ بٹایا گیا اور کس طرح ہمارے ٹی وی چینل سمیت میڈیا کو ان کا معاون اور ہم رکاب بنایا گیا۔ میں چونکہ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کو خود اسٹیبلشمنٹ اور ملک کے لئے نقصان دہ سمجھتا ہوں، اس لئے جب عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ نے اپنا گھوڑا بنایا تو اس وقت سے میری خصوصی تنقید کا رخ ان کی طرف ہونے لگا۔ 

دوسری طرف عمران خان چونکہ میڈیا کے لاڈلے بنائے گئے تھے اور سلیبرٹی کی زندگی گزارنے کی وجہ سےتنقید سننے کے عادی بھی نہیں تھے، اس لئے دوسرے سیاستدانوں کے برعکس انہوں نے میری تنقید کو دل پر لیا اور یہ سمجھ بیٹھے کہ شاید مجھے ان سے کوئی ذاتی پرخاش ہے۔ حالانکہ میری خصوصی تنقید کی پہلی وجہ مذکورہ پس منظر تھا۔

ایک اور بات جس کی وجہ سے میں عمران خان پر تنقید کرنے والوں میں نمایاں ہوگیا یہ تھی کہ میں عمران خان کو اس طرح نہیں سمجھ رہا تھا، جس طرح کہ ان کے چاہنے والے یا پھر ہمارے میڈیا کے بعض دوست سمجھ رہے تھے۔ مجھے چونکہ ان کو صحافت میں آنے سے قبل قریب سے جاننے کا موقع ملا تھا، اس لئے میں سمجھ رہا تھا کہ وہ حقیقت میں ایسے نہیں کہ جیسے نظر آ رہے ہیں۔

 مثلاً لوگ ان کو بڑا صاحبِ دل سمجھ رہے تھے لیکن میرے نزدیک وہ ایک ایسے شخص تھے جن کا صرف ذہن اور خواہش ہے لیکن ان کا دل نہیں ہے۔ لوگ انہیں سچا اور کھرا انسان سمجھ رہے تھے لیکن میرے نزدیک وہ زرداری اور نواز شریف کی طرح کے ایک سیاستدان تھے۔ اب آصف زرداری جیسے ہیں، لوگ ان کو ویسا ہی سمجھ رہے ہیں۔ یہی معاملہ میاں نواز شریف، مولانا فضل الرحمٰن، اسفندیار ولی خان اور دیگر سیاسی رہنمائوں کا ہے“۔(جاری ہے)

(راقم کی نئی کتاب ”اور تبدیلی الٹی پڑگئی“ سے اقتباس)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔