بلاگ
Time 17 نومبر ، 2021

اشاروں کی سیاست

وزیراعظم عمران خان اس وقت سیاسی تنہائی کا شکار ہیں جس کے شاید وہ خود بھی ذمہ دار ہیں۔ حزب اختلاف تو ان کی نظر میں چور، ڈاکو اور مافیا مگر ان سے ناراض تو ان کے اپنے ہیں چاہے وہ اتحادی ہوں یا پارٹی والے جن میں سے کچھ بول سکتے ہیں باقی خاموش ہیں۔ 

اس سب کے باوجود مجھے نہ حکومت خطرے میں نظر آرہی ہے نہ کپتان جاتا ہوا نظر آرہا ہے البتہ زلزلے کے جھٹکے ضرور محسوس ہورہے ہیں اسلام آباد اور اس کے گردونواح میں۔دیکھیں میں تو ایک جمہوری سوچ رکھنے والا شخص ہوں اور چاہتا ہوں کہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے اور عمران خان پہلے وزیراعظم بنیں جو پانچ سال پورے کریں کیونکہ اس ملک میں جنہیں ایک منٹ بھی حکومت کرنے کا حق نہیں تھا انہوں نے 11سال، 10سال اور 9سال حکومت کی۔

خان صاحب کے پچھلے چند ماہ سخت گزرے ہیں اور اگر کوئی تگڑی اپوزیشن ہوتی تو شاید حکومت چلانا مشکل ہوجاتا مگر وہ خوش قسمت حکمران ہیں کہ ایک ایسی حزب اختلاف ان کے حصے میں آئی جو خود اختلافات کا شکار ہے ورنہ 2018 کے الیکشن کے بعد سے کم از کم سینیٹ تو انہی کے پاس ہے۔

 یہ سب ان ’اشاروں‘ کے کمالات ہیں کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے ورنہ آج صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ نہ ہوتے، عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوجاتی، حاصل بزنجو مرحوم چیئرمین ہوجاتے، یوسف رضا گیلانی کو وہ سب نہیں کرنا پڑتا۔یہ ایک مختصر خاکہ تھا ’اشاروں کی زبان‘ کا۔ لہٰذا ابھی اتحادی خان صاحب کا ساتھ نہیں چھوڑ رہے۔ جن کے کہنے پر وہ آئے تھے انہی کے کہنے پر جائیں گے۔ 

مسند اقتدار میں بیٹھے ہمارے اکثر حکمرانوں کا مسئلہ یہ رہا ہے کہ انہیں ایوانوں سے باہر کا موسم محسوس نہیں ہوتا۔ زلزلے کے جھٹکے آئیں بھی تو پتا نہیں چلتا۔ رہ گئی بات درباریوں کی تو یہ تو وہ گرگٹ ہیں جنہیں دیکھ کر خود گرگٹ بھی شرما جاتا ہے کہ اتنی تیزی سے تو میں بھی رنگ نہیں بدلتا۔

 ان میں سے بیشتر ابھی وہیں ہیں تو خان کو گھبرانا نہیں ہے۔البتہ پچھلے چند ہفتوں میں جو کچھ ہوا اس سے اس تاثر نے زور پکڑا کہ معاملہ گڑبڑ ہے۔ قومی اسمبلی میں دو بلوں پر حکومتی شکست۔ اب مغرب کو تو میرا کپتان سب سے بہتر جانتا ہے وہی بتا سکتا ہے کہ وہاں اگر یہ ہوتا تو وزیراعظم کیا کرتا۔ 

صرف یہی نہیں حکومت کو اچانک پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ملتوی کرنا پڑا کیونکہ جب آپ کے اپنے اتحادی آپ پر اعتماد نہ کررہے ہوں تو کامیابی کے امکانات کم ہوتے جاتے ہیں۔ ’اشاروں کی سیاست‘ میں سب چیزیں اچانک ہی ہوا کرتی ہیں۔ عین ممکن ہے ابھی تک بات اس حد تک نہ بگڑی ہو کہ تبدیلی کی ہوا چل پڑے۔ خان صاحب کی حکومت تو ویسے بھی اشاروں کے سہارے کھڑی ہے۔

بظاہر عمران خان صاحب کو غیر ضروری تنازع کھڑے کرنے کی ضرورت نہیں تھی مگر شاید آئندہ الیکشن سے پہلے ان کے اندر بھی یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اداروں کو مزید آزاد اور خودمختار بنانے کے بجائے کنٹرول کرو۔ چنانچہ سب سے پہلے میڈیا کو سبق سکھانے کے لیے مختلف طور طریقے اپنائے گئے۔

 پھر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ساتھ معاملات بگڑنے شروع ہوئے فارن فنڈنگ کیس سے۔ اب کوشش کی جارہی ہے کہ اپنی پسند کے دو ممبران لاکر چیئرمین کو پاور لیس یا اقلیت میں کردیا جائے۔ ڈسکہ الیکشن رپورٹ نے بہت سے انکشافات کردیئے ہیں۔ تیسرا وار نیب پر کیا گیا۔ جو سلسلہ چیئرمین نیب کی ویڈیو لیک سے شروع ہوا تھا وہ نیب کے چیئرمین کو توسیع دے کر اور آرڈی نینس لاکر اس کی برطرفی وزیراعظم کی صوابدید میں دینے کی تجویز پر بھی نہیں ہوا جس کی مخالفت خود اٹارنی جنرل نے کردی ہے۔

ابھی یہ معاملات ہی نہیں سدھرے تھے کہ آرمی چیف کی طرف سے نئے ڈی جی ISI کی تقرری کا معاملہ آگیا۔ جو بات 6اکتوبر کو شروع ہوئی تھی اس کا اختتام بظاہر دو دن بعد یعنی 19نومبر کو ہونے جارہا ہے۔ایک آئینی وزیراعظم کو پارلیمانی جمہوریت میں لامحدود اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔

 وہ نئے الیکشن بھی کراسکتا ہے، نئے آرمی چیف، نئے ڈی جی ISI کا تقرر بھی کرسکتا ہے۔ اس سب کے باوجود ایک آسان راستہ تو ان کے پاس یہ تھا کہ اس سب کے بجائے سول سروس اور پولیس ریفارمز کرتے۔ جن کو آپ چور ڈاکو کہتے نہیں تھکتے ، مدد بھی انہی سے مانگے جارہے ہو۔ درجنوں افسروں کو پنجاب میں تبدیل کرنے کے بجائے ایک وزیراعلیٰ پنجاب کو تبدیل کردیتے تو شاید آپ کو نئے اتحادیوں کی تلاش کی ضرورت نہ پڑتی۔

ذرا غور کریں کہ پنجاب میں آپ کی حکومت مسلم لیگ (ق) کی مرہونِ منت ہے اور اندازِ حکمرانی یہ ہے کہ چوہدریوں کو دیکھنا آپ پسند نہیں کرتے۔ یاد ہے مونس الٰہی کے منہ پر یہ کس نے کہا تھا کہ مجھے تو تمہاری شکل پسند نہیں۔ مگر موسم بدلا تو اسی کو وفاقی وزیر بنانا پڑا۔ کل کے چور ڈاکو آج کے اتحادی بن گئے۔

 رہی بات دوسرے اتحادی ایم کیو ایم (پاکستان) کی تو انہوں نے تو گھبرانا شروع کردیا ہے۔ سیاسی مطالبات تو خیر ان کے کیا تسلیم ہونے تھے مثلاً سیکٹر آفس، خورشید میموریل ہال، جناح گرائونڈ، اسیر کارکنوں کی رہائی۔ اب تو اطلاع یہ ہے کہ شاید نئی مردم شماری بھی وقت پر نہ شروع ہوسکے۔ موسم تو ویسے بھی اکتوبر، نومبر میں بدلتا ہے مگر سیاسی موسم بدلنے کا کوئی وقت نہیں۔

 حزب اختلاف دسمبر میں اپنی نہ چلنے والی تحریک کی پہلی سالگرہ منائے گی کیونکہ وہ پچھلے دسمبر میں حکومت کو گھر بھیج رہی تھی۔ اب ایک بار پھر اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی باتیں ہورہی ہیں جس کی جوابی تیاری کے لیے اسد عمر تیار ہیں اب دیکھتے ہیں کوئی تاریخ دی جاتی ہے یا پھر لانگ مارچ خرابی موسم کے باعث ملتوی کیا جائے گا۔

ہر بات کا دارومدار ’اشاروں‘ پر ہے اور اب اگر ہمارا سیاسی سرکس اشاروں کے گرد ہی گھومنا ہے تو پھر کیسا لانگ مارچ، کہاں کا دھرنا اور کیا اِن ہائوس تبدیلی۔ سیاست کو اگر 6 اکتوبر یا 19 اور 20 نومبر کا ہی انتظار کرنا ہے تو ایسی ’جدوجہد‘ سے ووٹ کو عزت تو نہیں مل سکتی بس ووٹ آپ کے حق میں پڑ سکتا ہے۔ لگتا کچھ ایسا ہی ہے کہ ہماری آج کی سیاست افتخار عارف کے بارہویں کھلاڑی کی مانند ہے جہاں وہ انتظار کرتا ہے، ایک ایسے لمحے کا جس میں سانحہ ہوجائے، پھر وہ کھیلنے نکلے تالیوں کے جھرمٹ میں۔ ایک جملہ خوش کن ایک نعرۂ تحسین، اس کے نام ہوجائے.


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔