17 نومبر ، 2021
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مشترکہ مفادات کونسل کے مردم شماری 2017 کے فیصلے کے خلاف سندھ حکومت کا ریفرنس بھی مسترد کردیا گیا۔
وزیر منصوبہ بندی ترقی و خصوصی اقدامات اسد عمر نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تحریک پیش کی کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس مذکورہ قواعد کے قاعدہ 20 کے ذیلی قاعدہ 3 کے تحت حکومت سندھ کے تحفظات جو 8 اکتوبر 2021 کو بحوالہ مراسلہ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ اراکین میں پہلے ہی مشتہر کیے گئے ہیں، کو مدنظر رکھتے ہوئے مشترکہ مفادات کونسل کے مردم شماری 2017 سے متعلق فیصلے پر غور اور اس کے مقدر کا فیصلہ کرے۔
اس پر پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ مردم شماری کا مسئلہ حساس ہے، سندھ میں دیگر صوبوں سے آکر لوگ آباد ہیں، سندھ میں آنے والوں کو ان کے علاقوں میں شمار کیا گیا، اس لیے حقیقی آبادی شمار نہیں ہو سکی۔
ان کا کہنا تھاکہ صوبہ سندھ کی آبادی مردم شماری 2017 میں 30 فیصد کم دکھائی گئی، اس سے ہماری قومی اسمبلی میں نشستوں میں بھی کمی ہوئی ہے۔
اس حوالے سے ایم کیو ایم کے سینیٹر فیصل سبزواری نے کہا کہ اس مسئلے پر ہماری جماعت کا مؤقف واضح ہے، قومی مالیاتی کمیشن کا حصہ آبادی کی بنیاد پر دیا جارہا ہے، اس لیے آبادی کا گنا جانا ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھاکہ 2017 کی مردم شماری سے سب سے زیادہ متاثر کراچی ہوا ہے، ہم کہتے ہیں کہ نئی مردم شماری ہو، حکومت نے جرات مندانہ فیصلے کرتے ہوئے اس کیلئے فیصلے کیے۔
فیصل سبزواری نے کہا کہ مردم شماری ایسی ہو جس پر کسی کو اعتراض نہ ہو جو فرد جہاں ہو اس کو وہاں گنا جانا چاہیے تاکہ اس میں ٹیکنالوجی کی بنیاد پر درست اعداد و شمار ضرور ہوں، نئی بروقت اور منصفانہ مردم شماری ضروری ہے۔
وفاقی وزیر اسد عمر نے تھاکہ یہ انتہائی اہم مسئلہ ہے، جس طرح اس پر سیاست کی جارہی ہے، سندھ حکومت اپنی دلیل میں ایک سروے کا حوالہ دیتی ہے، میکس کے نام سے سندھ حکومت نے یہ سروے کرایا ہے، کراچی کی آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ ہے، اس سروے میں کم ہو کر ایک کروڑ 50 لاکھ رہ جائے گی، اس سے ظاہر ہے کہ کون وفاق کو مضبوط کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھاکہ مارچ سے مئی 2017 میں یہ سروے کرایا گیا، یہ سروے صوبائی حکومتوں نے کرایا، یہ اعداد و شمار ان کی حکومت کے دور میں مرتب ہوئے، اس مردم شماری کے دوران وفاق میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی، ہمارا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔
انہوں نے بتایا کہ نومبر میں پانچ فیصد آڈٹ کی بات کی گئی، نومبر میں مشترکہ مفادات کونسل میں فیصلہ ہوا، 27 مئی کو اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں اجلاس ہوا، اس میں شماریات ڈویژن کی بریفنگ کو سراہا گیا، وہ کہہ رہے تھے کہ اس میں تاخیر ہوئی اب پانچ فیصد آڈٹ نہیں ہو سکتا پھر نئی حکومت پر چھوڑ دیا گیا۔
اسد عمر کا کہنا تھاکہ تین اکائیوں کی جانب سے اس مردم شماری پر اعتراضات اٹھائے گئے، آڈٹ کرانے کا وقت گزر چکا، دو سال میں لاکھوں بچے پیدا ہوچکے، اموات ہو چکیں، نئی مردم شماری کرانے کے دو راستے ہیں، 2017 کے نتائج مسترد کیے جائیں یا ان کو منظور کرلیں تاکہ نئی مردم شماری ہو سکے، اس کو اگر نامنظور کریں گے تو 1998 کی مردم شماری بحال ہو جاتی ہے اور سندھ کا مالی و سیاسی نقصان ہوگا۔
ان کا مزید کہنا تھاکہ عمران خان لسانیت کی سوچ نہیں رکھتے، انہوں نے اس کی منظوری کا کہا، دس سال بعد مردم شماری ہونی ضروری ہے، عمران خان پانچ سال بعد یہ مردم شماری کرا رہے ہیں، اپوزیشن جدید ٹیکنالوجی سے گھبراتی ہے، ہم جدید ٹیکنالوجی سے یہ مردم شماری کرائیں گے، ہم اپوزیشن کی تجویز مسترد کرتے ہیں۔
انہوں نے بلاول بھٹو کی ایوان میں تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے آج کہا ہے کہ حکومت مہنگائی ختم کرے ہم ساتھ دیں گے، سندھ میں آٹے کی بوری دیگر صوبوں کی نسبت 250 روپے فی من مہنگی مل رہی ہے وہ توقع ہے کہ اس کی قیمت کم کریں گے۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی کا کہنا تھاکہ عمران خان نے عوام کیلئے تاریخی پیکج دیا ہے، سندھ حکومت بھی اس کا حصہ بنے۔
اس موقع پر سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ فیصلے پر اپیل کرنے کا حق ہے، یو این نے سمپل سروے کیا ہے۔
بعد ازاں اسپیکر نے تحریک ایوان میں پیش کی جسے منظور کرلیا اور سندھ حکومت کا ریفرنس مسترد کردیا گیا۔